سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ لوگوں کو جمع دیکھا اور پوچھا: یہ لوگ کیوں اور کس چیز پر جمع ہیں؟ کسی نے کہا: یہ ایک قبر پر جمع ہیں، اسے کھود رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان ہو گئے اور اپنے صحابہ کے آگے آگے جلدی جلدی لپکے اور قبر کے پاس کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے، میں آپ کے سامنے آیا تاکہ دیکھ سکوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر روئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوئوں سے زمین تر ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے بھائیو! اس دن کے لیے تیاری کرو۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف محمد بن مالك الجوزجاني أخرجه ابن ماجه: 4195، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18601 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18802»
عطاء بن سائب کہتے ہیں: پہلا دن، جس میں عبدالرحمن بن ابی لیلی سے میری معرفت ہوئی، اس میں یوں ہوا کہ میں نے گدھے پر سوار ایک بزرگ دیکھا، اس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے اور وہ ایک جنازے کے پیچھے چل رہا تھا اور یہ بیان کر رہا تھا: مجھے فلاں بن فلاں صحابی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ یہ سن کر لوگ رونے لگ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تم روتے کیوں ہو؟ لوگوں نے کہا: ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند نہیں کرتے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بات اس طرح نہیں ہے، جب کسی کی موت قریب آجاتی ہے تو اگر وہ اللہ تعالیٰ کے مقرّب بندوں میں سے ہوتا ہے تو اس کے لیے راحت، خوشبو اور نعمتوں والا باغ ہوتا ہے، اس لیے جب اسے ان چیزوں کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو زیادہ چاہنے والا ہوتا ہے۔لیکن اگر وہ شخص جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہوتا ہے تو اس کی میزبانی کھولتا ہوا پانی ہوتا ہے اور پھر بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہونا ہوتا ہے، اس لیے جب اسے ان چیزوں کی بشارت سنائی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو بہت ناپسند کرنے والا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة:18283 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18472»
شریح بن ہانی کہتے ہیں: میں مدینہ کی مسجد میں تھا، سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہاں یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ میں یہ حدیث سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلا گیا اور کہا: اگر بات اسی طرح ہو جیسے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب ہلاک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جو ہلاک ہوا، وہ تو واقعی ہلاک ہونے والا ہے، بھلا بات ہے کون سی؟ میں نے کہا: سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں بھی گواہی دیتی ہوں کہ میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے۔ بھلا کیا تم جانتے ہو ایسا کیوں ہو گا؟ جب سینے سے سانس کے گھٹنے کی آواز آنے لگے گی، نظر کھلی رہ جائے گی، رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور انگلیاں اکڑ جائیں گی، اس موقعہ پر جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات پسند کرتاہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2685، وأخرج المرفوع منه البخاري: 7504 وجعله حديثا قدسيا، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8556، 9410 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8537»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: جب بندہ میری ملاقات کو پسند کرتا ہے تو میں بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہوں، اور جب بندہ میری ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو میں بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔کسی نے سیدہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا:ہم میں سے ہر ایک موت کو ناپسند کرتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے؟ انہوں نے کہا: جب موت کا وقت قریب آتا ہے تو سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث السابق: 4 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 9821»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو چاہتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کو ناپسند کرتاہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جو تم سمجھ رہے ہو) یہ موت کو ناپسند کرنا نہیں ہے۔ بات یہ ہے جب مومن کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بشارت دینے والا فرشتہ آ کر اسے اس کے انجام سے مطلع کرتا ہے، اس وقت اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، تواللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو پسند کرنے لگتا ہے، لیکن جب فاجر یا کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تواس کے پاس آنے والا اسے اس کے برے انجام پر مطلع کرتا ہے، سو وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط الشيخين أخرجه البزار: 780، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12047 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12070»
سیّدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ سے ملنا پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو آدمی اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 6507، ومسلم: 2683، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22744 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23124»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُسی طرح کی حادیث مروی ہے، اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: اور موت کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات والے مسئلہ سے پہلے کا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2684، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24172 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24674»
سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں یہ بتلا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اہل ایمان سے سب سے پہلے کیا فرمائے گا اور وہ اس کو کیا کہیں گے؟ ہم نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مومنوں سے کہے گا: کیا تم میری ملاقات پسند کرتے تھے؟ وہ کہے گے: جی ہاں، اے ہمارے ربّ! اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیوں؟ وہ کہیں گے: ہم تیری معافی اور بخشش کی امید رکھتے تھے۔ پس وہ کہے گا: تمہارے لیے میری بخشش واجب ہو چکی ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، عبد الله بن زحر ضعيف، وأبو عياش المعافري لم يسمع من معاذ أخرجه الطيالسي: 564، والطبراني في ’’الكبير‘‘: 20/ 251، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22072 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22422»
سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات سے تین روز قبل یوں فرماتے ہوئے سنا: خبردار! تم میں سے جس کسی کو بھی موت آئے تو وہ اس حال میں مرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہو۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2877، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14386 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 14439»
(دوسری سند)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کسی کو بھی موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو، ایک قوم کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کے سوئے ظن نے ہلاک کر دیا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تمہاری اس بد گمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا اور بالآخر تم گھاٹا پانے والوں میں ہو گئے۔ (سورہ حم سجدۃ: ۲۳)
تخریج الحدیث: «حديث صحيح دون قوله: ((فان قوما قد أرداھم۔)) وھذا اسناد ضعيف لضعف النضر بن اسماعيل، وابنُ ابي ليلي سييء الحفظ وانظر الحديث بالطريق الأول، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15197 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15267»