1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الفتح الربانی
كِتَابُ الْاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب و سنت کو تھامنے کے ابواب
1. بَابٌ فِي الِاعْتِصَامِ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
1. اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مضبوطی سے جم جانے کا بیان
حدیث نمبر: 322
عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ التَّيْمِيِّ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ مَعَهُ، لَقَدْ رَأَيْتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ! فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي! وَاللَّهِ! لَقَدْ كَبُرَتْ سِنِّي وَقَدُمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا وَمَا لَا فَلَا تُكَلِّفُونِي إِيَّاهُ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فِينَا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا، يَعْنِي بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَأُجِيبَ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ)) فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، قَالَ: ((وَأَهْلُ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي)) فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَلَكِنَّ أَهْلَ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: آلُ عَلِيٍّ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَكُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ
یزید بن حیان تیمی کہتے ہیں: میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم، سیدنا زید بن ارقم ؓ کے پاس گئے، جب ہم ان کے پاس بیٹھ گئے تو حصین نے کہا: اے زید! تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سنی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں، زید! بس تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، زید! تم نے جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں، وہ ہمیں بھی بیان کرو، انھوں نے کہا: اے بھتیجے! میری عمر بڑی ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کو بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو احادیث یاد کی تھیں، ان میں سے بعضوں کو بھول بھی گیا ہوں، اس لیے میں تم کو جو کچھ بیان کر دوں، اس کو قبول کر لو اور جو نہ کر سکوں، اس کی مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، کے مقام پر خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور وعظ و نصیحت کی اور پھر یہ بھی فرمایا: أَمَّا بَعْدُ! خبردار! اے لوگو! میں ایک بشر ہی ہوں، قریب ہے کہ میرے ربّ کا قاصد میرے پاس آ جائے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، بات یہ ہے کہ میں تم میں دو بیش قیمت اور نفیس چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، پس اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر آمادہ کیا اور اس کے بارے میں ترغیب دلائی، اور پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد دلاتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ یاد کرواتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے حق میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں۔ حصین نے کہا: اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں؟ انھوں نے کہا: بیشک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت وہ ہیں، جن پر صدقہ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آلِ علی، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ اس نے کہا: کیا اِن سب پر صدقہ حرام ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2408، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19265 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19479»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 323
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ))
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم میں دو بیش قیمت چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک رسی ہے، جس کو آسمان سے زمین کی طرف لٹکایا گیا ہے اور میری نسل میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدا نہیں ہوں گی، یہاں تک کہ دونوں میرے حوض پر آ جائیں گی۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح بشواهده دون قوله: فانھما لن يفترقا حتي يردا علي الحوض وھذا اسناد ضعيف، عطيه بن سعد العوفي ضعيف۔ أخرجه ابن ابي شيبة: 10/ 506، وابو يعلي: 1027، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 11104 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11120»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 324
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ أُمَّتَكَ مُخْتَلِفَةٌ بَعْدَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: فَأَيْنَ الْمَخْرَجُ يَا جِبْرِيلُ! قَالَ: فَقَالَ: كِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، بِهِ يَقْصِمُ اللَّهُ كُلَّ جَبَّارٍ، مَنْ اعْتَصَمَ بِهِ نَجَا، وَمَنْ تَرَكَهُ هَلَكَ مَرَّتَيْنِ، قَوْلُهُ فَصْلٌ وَلَيْسَ بِالْهَزْلِ، لَا تَخْتَلِقُهُ الْأَلْسُنُ وَلَا تَفْنَى عَجَائِبُهُ، فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ وَفَصْلُ مَا بَيْنَكُمْ وَخَبَرُ مَا هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ))
سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیلؑ میرے پاس آئے اور کہا: اے محمد! آپ کی امت آپ کے بعد اختلاف کرنے والی ہے، میں نے کہا: اے جبریل! اس سے نکلنے کی راہ کیا ہو گی؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ہر سرکش کو تباہ کرے گا، جس نے اس کو تھام لیا وہ نجات پا گیا، جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہو گیا، یہ بات دو دفعہ کہی، اس کی بات صحیح اور قطعی ہے اور مذاق نہیں ہے، اس کو زبانیں نہیں گھڑ سکتیں، اس کے عجائب ختم نہیں ہو سکتے، اس میں تمہارے اندر (کے نزاعات کا) فیصلہ ہے اور جو کچھ تمہارے بعد ہونے والا ہے، اس کی اس میں خبریں ہیں۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف الحارث بن عبد الله الاعور، ثم ھو منقطع، لانه لا تعرف لمحمد بن اسحاق رواية عن محمد بن كعب القرظي، بل ھو يروي في السيرة عنه بواسطة۔ أخرجه الترمذي: 2906، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 704 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 704»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 325
عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: نَزَلَ الْقُرْآنُ وَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ السُّنَنَ، ثُمَّ قَالَ: اتَّبِعُونَا فَوَاللَّهِ! إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا تَضِلُّوا
سیدنا عمران بن حصین ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: قرآن مجید نازل ہوا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقے جاری کیے، پھر انھوں نے کہا: پس تم ہم صحابہ کی پیروی کرو، اللہ کی قسم ہے کہ اگر تم اس طرح نہیں کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، مؤمل بن اسماعيل سييء الحفظ، وعلي بن زيد بن جدعان ضعيف، والحسن البصري لم يسمع من عمران، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19998 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 20240»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 326
عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَخَطَّ خَطًّا هَكَذَا أَمَامَهُ فَقَالَ: ((هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)) وَخَطَّيْنِ عَنْ يَمِينِهِ وَخَطَّيْنِ عَنْ شِمَالِهِ، قَالَ: ((هَذِهِ سَبِيلُ الشَّيْطَانِ)) ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ فِي الْخَطِّ الْأَوْسَطِ ثُمَّ تَلَى هَذِهِ الْآيَةَ: {وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا الطُّرُقَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ، ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سامنے والی سمت میں ایک (سیدھا) خط لگایا اور فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو لکیریں دائیں طرف اور دو لکیریں بائیں طرف لگائیں اور فرمایا: یہ شیطان کا راستہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درمیان والے (سیدھے) خط پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت کی: اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔ (الانعام: ۱۵۳)
تخریج الحدیث: «حسن لغيره۔ أخرجه ابن ماجه: 11، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15277 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15351»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 327
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَنْ يَزَالَ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ عِصَابَةٌ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيهُمْ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ))
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ ایک جماعت اس دین پر حق کے ساتھ قائم رہے گی، ان کی مخالفت کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے گا اور وہ اسی حق پر برقرار ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده قوي۔ أخرجه ابن حبان: 6835، والبزار: 3320، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8484 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8465»

حكم: صحیح

2. بَابٌ فِي الْإِعْتِصَامِ بِسُنَّتِهِ ﷺ وَالْاهْتِدَاءِ بِهَدْيِهِ
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو تھامنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے رہنمائی طلب کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 328
عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ الْكَلَاعِيُّ قَالَا: أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ: {وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ} فَسَلَّمْنَا وَقُلْنَا: أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ عِرْبَاضٌ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ذَاتَ يَوْمٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: ((أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ))
عبد الرحمن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کلاعی کہتے ہے: ہم سیدنا عرباض بن ساریہ ؓ کے پاس گئے، یہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لیے کچھ بھی نہیں پاتا۔ (سورۂ توبہ: ۹۲) ہم نے ان کو سلام کیا اور کہا: ہم آپ کی زیارت اور تیماری داری کرنے کے لیے اور آپ سے علمی استفادہ کرنے کے لیے آئے ہیں، سیدنا عرباض ؓ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن ہمیں نمازِ فجر پڑھائی، پھر ہم پر متوجہ ہوئے اور ہمیں اتنا مؤثر و بلیغ وعظ کیا کہ آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے، ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی وعظ و نصیحت لگتی ہے، پس آپ ہمیں کون سی نصیحت کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو اللہ کے ڈر اور (امراء کی باتیں) سننے اور ان کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ وہ حبشی ہو، پس بیشک تم میں سے جو آدمی میرے بعد زندہ رہے گا،وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اِس پر کابند رہو اور سختی کے ساتھ اس پر قائم رہو اور نئے نئے امور سے بچو، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه ابوداود: 4607، وابن ماجه: 44، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17145 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17275»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 329
(وَعَنْهُ مِنْ طَرِيقٍ آخَرَ بِنَحْوِهِ) وَفِيهِ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ هَذِهِ لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا، قَالَ: ((قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ، لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيغُ عَنْهَا بَعْدِي إِلَّا هَالِكٌ وَمَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ (فَذَكَرَ نَحْوَ مَا تَقَدَّمَ وَفِيهِ) فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي، (وَفِيهِ أَيْضًا) عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ كَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَيْثُمَا انْقَادَ انْقَادَ))
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی و عظ ونصیحت ہے، پس آپ ہمیں کیا نصیحت کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تحقیق میں تم کو ایسی روشن شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، اب اس سے وہی گمراہ ہو گا، جو ہلاک ہونے والا ہو گا، اور جو تم میں سے زندہ رہے گا، (سابقہ حدیث کی طرح روایت کو بیان کیا)، پس تم میری جس سنت کو پہچانتے ہو گے، اس کو لازم پکڑنا، (اور اس میں یہ بھی ہے:) پس تم اس پر سختی سے قائم رہنا، پس مؤمن تو اس نکیل شدہ اونٹ کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو جدھر کھینچا جاتا ہے، وہ اُدھر ہی پیچھے پیچھے چل پڑتاہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح بطرقه وشواھده۔ أخرجه ابن ماجه: 43، وانظر الحديث بالطريق الاول، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17142 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17272»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 330
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: ((مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخَلَّفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلَفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ))
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی کسی امت میں مبعوث فرمایا، اس کی امت میں سے اس کے حواری ہوتے تھے، جو اس کی سنت پر عمل کرتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے، پھر ان کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشین بنے، جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 50، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 4379 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 4379»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 331
عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ ابْنِ عُمَرَ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) فِي سَفَرٍ فَمَرَّ بِمَكَانٍ فَحَادَ عَنْهُ، فَسُئِلَ لِمَ فَعَلْتَ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا فَفَعَلْتُ
مجاہد کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، پس جب وہ ایک جگہ سے گزرے تو اس سے ایک طرف ہو گئے، پس ان سے سوال کیا گیا کہ انھوں نے ایسے کیوں کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا، سو میں نے بھی کیا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح۔ أخرجه البزار: 128، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 4870 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 4870»

حكم: صحیح


1    2    3    4    Next