سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لاتا۔ ابو حازم نے کہا: اللہ تعالیٰ اس دین پر لعنت کرے کہ میں جس سے بڑا ہوں، ان کی مراد تقدیر کو جھٹلانے پر (ردّ کرنا ہے)۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6703 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6703»
سیدنا ابو بکر صدیق ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عمل اس چیز کے مطابق ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا اس کے مطابق ہے، جو ازسرِ نو ہو رہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس معاملے کے مطابق ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس چیز میں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره۔أخرجه الطبراني في الكبير: 47، والبزار: 28، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19»
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ جہینہ یا مزینہ قبیلے کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس (تقدیر) کے مطابق جو گزر چکی ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے۔ اس آدمی نے یا کسی اور شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنتیوں کے لیے اہلِ جنت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جہنمیوں کے لیے اہلِ جہنم کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط الشيخين۔ أخرجه ابوداود: 4696، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 184 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 184»
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا سراقہ بن جعشم ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس (تقدیر) کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے، یا اس چیز کے مطابق جو ہم از سرِ نو کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ انھوں نے کہا: تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «ھو حديث طويل و أخرجه مسلم مفرقا: 1213، 2648، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14258 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 14308»
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں، جس سے فارغ ہو ا جا چکا ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہم کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے۔ سیدنا سراقہ ؓ نے کہا: تو پھر عمل کی کیا حقیقت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر عامل کے لیے اس کا عمل آسان کر دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2648، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14600 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 14654»
سیدنا علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کو کرید رہے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی منزل کا علم ہو چکا ہے کہ وہ جنت ہے یا جہنم۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر ہم عمل کیوں کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم عمل کرو، ہر ایک کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لیے آسان کر دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور (اپنے ربّ سے) ڈرا اور نیک بات کی تصدیق کی۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔ لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی۔ تو ہم بھی اسی کے لیے اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔ (سورۂ لیل: ۵ تا۱۰)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4946، 4949، 7217، ومسلم: 2647، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 621 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 621»
۔ (دوسری روایت)سیدنا علی ؓ کہتے ہیں: ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے زمین کو کرید، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نگاہ اوپر اٹھائی اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا جنت اور جہنم کی صورت میں ٹھکانہ لکھا جا چکا ہے اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ وہ خوش بخت ہے یا بد بخت۔ لوگوں نے کہا: کیا ہم اپنی کتاب پر اعتماد کر کے عمل ترک نہ کر دیں، کیونکہ جو خوش بختوں میں سے ہو گا، وہ خوش بختی تک رسائی حاصل کرلے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا، وہ بدبختی تک پہنچ جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کو آسان کر دیا گیا ہے، جو بد بختوں میں سے ہے، اس کے لیے بدبختی کے عمل آسان کر دیئے گئے ہیں اور جو خوش بختوںمیں سے ہے، اس کے لیے خوش بختی کے عمل آسان کر دیئے گئے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات تلاوت کیں: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی۔ وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی۔ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی۔} … جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے ربّ سے)، اور نیک بات کی تصدیق کی، تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی، اور نیک بات کی تکذیب کی، تو ہم بھی اس کے لیے تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 1067»
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جو عمل کر رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ اس (تقدیر) کے مطابق ہیں، جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، یا اب ان کی ابتداء ہو رہی ہے اور ان کو ایجاد کیا جا رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ اس (تقدیر)کے مطابق ہے، جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، اے ابن خطاب! عمل کر، پس ہر ایک کو آسان کر دیا گیا ہے، پس جو شخص خوش بختوں میں سے ہو، وہ خوش بختی کے لیے عمل کرتا ہے اور جو بد بختوںمیں سے ہو، وہ بد بختی کے لیے عمل کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره۔ أخرجه الترمذي: 3111، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 196 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 196»
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں دو کتابیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سی دو کتابیں ہیں؟ ہم نے کہا: جی نہیں، اے اللہ کے رسول! الّا یہ کہ آپ ہمیں بتا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں اہل جنت اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور اخیر پر ان کی میزان جوڑ دی گئی ہے (ٹوٹل)نہ ان میں بیشی ہو سکتی ہے، نہ کمی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں کہا: یہ جہنمیوں کی کتاب ہے، اس میں ان کے نام اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور اخیر پر ان کی میزان جوڑ دی گئی، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ صحابہ نے کہا: اگر اس معاملے سے اس قدر فارغ ہوا جا چکا ہے تو پھر ہم کس چیز کے لیے عمل کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: راہِ صواب پر چلتے رہو اور میانہ روی اختیار کرو، بیشک جنتی آدمی کا اختتام جنت والوں کے عمل کے ساتھ ہو گا، اگرچہ وہ جون سا مرضی عمل کرتا رہے اور جہنمی آدمی کا اختتام اہلِ جہنم کے عمل کے ساتھ ہو گا، اگرچہ وہ جو مرضی عمل کرتا رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو بند کیا اور فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندوں سے فارغ ہو گیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں سے اس کتاب کو پھینکا اور فرمایا: ایک فریق جنت میں جائے گا۔ پھر بائیں ہاتھ سے کتاب کو پھینکا اور فرمایا: ایک فریق جہنم میں جائے گا۔
تخریج الحدیث: «حسن، قاله الالباني۔ أخرجه الترمذي: 2141، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6563 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6563»
سیدنا عبد الرحمن بن قتادہ سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور میں بے پروا ہوں اور یہ جہنم کے لئے ہیں او رمیں کوئی پروا نہیں کرتا۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تقدیر کے مطابق۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره۔ أخرجه ابن حبان: 338، والحاكم: 1/ 31، والطبراني في الكبير: 22/ 435، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17660 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17810»