عبید اللہ بن عدی بن خیار کہتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نے اس کو بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مجلس میں تھے، پس اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سرگوشی کی، دراصل وہ ایک آدمی کو قتل کرنے کی اجازت لے رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا: کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے؟ اس انصاری نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے لوگوں (کو قتل کرنے) سے منع کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح۔ أخرجه مرسلا مالك في المؤطا: 1/ 171، والبيھقي: 8/ 196، والشافعي في المسند: 1/ 13، وعبد الرزاق: 18688، وابن حبان: 5971، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23670 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24070»
۔ (دوسری روایت) اس عبیداللہ بن عدی بن خیار یہ بھی مروی ہے کہ عبداللہ بن عدی انصاری نے اسے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کی، باقی روایت مذکورہ بالا کی طرح ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث السابق ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24071»
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ سیدناعتبان ؓکی آنکھ میں تکلیف ہو گئی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لاحق ہونے والی تکلیف کا پیغام بھیجا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ تشریف لائیں، میرے گھر میں ایک مقام پرنماز پڑھیں، تاکہ میں اس کو جائے نماز بنا سکوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق چند صحابہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور صحابہ گفتگو میں مصروف ہو گئے، پھر وہ منافقوں کی طرف سے ہونے والی تکالیف کا ذکر کرنے لگے اور اس کا بڑا سبب مالک بن دخیشم کو قرار دیا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے اور فرمایا: کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ ایک آدمی نے جواب دیا: جی کیوں نہیں، وہ یہ گواہی تو دیتا ہے، لیکن اس کے دل میں اس کے مطابق عقیدہ نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس بندے نے یہ شہادت دی کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور میں اس کا رسول ہوں، تو ہرگز آگ اس کو نہیں کھائے گی یا (فرمایا) وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط مسلم، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12384 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12411»
سیدنا مقداد بن اسود ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک کافر آدمی سے میرا ٹاکرا ہو جائے، وہ مجھ سے لڑ پڑے، ہم دونوں ایک دوسرے کو ایک ایک ضرب لگائیں، لیکن وہ میرے ہاتھ کو تلوار سے ایسی ضرب لگائے کہ اس کو کاٹ دیے اور پھر مجھ سے پناہ طلب کرنے کے لیے ایک درخت کی اوٹ میں جا کر یہ کہنے لگ جائے: میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں، اے اللہ کے رسول! اب کیا میں اس سے لڑائی کروں؟ ایک روایت میں ہے: یہ بات کہنے کے بعد کیا میں اس کو قتل کر دوں یا چھوڑ دوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اس کو قتل نہ کر، اگر تو نے اس کو قتل کر دیا تو اِس قتل سے پہلے اسلام والی جو تیری حالت تھی، وہ اس میں آ جائے گا اور اِس قبولیت ِ اسلام والی بات سے پہلے جو اُس کی حالت تھی، تو اُس میں چلا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4019، ومسلم: 95، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23831 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24332»
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس امت کا جو یہودی اور عیسائی میرے بارے میں سنے گا اور پھر اس چیز پر ایمان نہیں لائے گا، جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے، تو وہ جہنمیوں میں سے ہو گا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 153، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8203 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8188»
سیدنا ابو موسی اشعریؓ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں وہ جہنمیوں میں سے ہو گا کی بجائے یہ الفاظ ہیں: وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره۔ أخرجه الطيالسي: 509، والنسائي في الكبري: 11241، وابن حبان: 4880، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19536 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19765»
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر یہودیوں کے دس علماء مجھ پر ایمان لے آئیں تو روئے زمین پر موجود ہر یہودی مجھ پر ایمان لے آئے گا۔ سیدنا کعب ؓ نے کہا: بارہ کا مصداق سورۂ مائدہ میں ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3941، ومسلم: 2793، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 9388 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 9377»
رباح بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ ان کی دادی نے اپنے باپ (سیدنا سعید بن زیدؓ) سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کا وضو نہیں اس کی کوئی نماز نہیں اور جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا، اس کا کوئی وضو نہیں اور جو شخص مجھ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لایا، وہ اللہ تعالیٰ پرایمان نہیں لا سکے گا اور جس بندے نے انصار سے محبت نہ کی، وہ مجھ پر ایمان نہیں لا سکے گا۔
ابو محیریز کہتے ہیں: میں نے ایک صحابی ابو جمعہ ؓ سے کہا: آپ ہمیں ایسی حدیث بیان کریں، جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہو، انھوں نے کہا: جی ہاں، میں تم لوگوں کو بڑی عمدہ حدیث بیان کرتا ہوں، ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صبح کا کھانا کھایا، ہمارے ساتھ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح بھی تھے، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی ہم سے بھی بہتر ہو سکتا ہے؟ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ لوگ بہتر ہیں، جو تمہارے بعد آئیں گے اور بِن دیکھے مجھ پر ایمان لے آئیں گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح۔ أخرجه الدارمي: 2744، والطبراني في الكبير: 3538، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16977 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17102»
سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو ملوں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم آپ کے بھائی ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم تو میرے ساتھی ہو، میرے بھائی تو وہ ہے، جو بِن دیکھے مجھ پر ایمان لائیں گے۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره۔ أخرجه ابويعلي: 3390، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12579 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12607»