سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں: ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دنیوی چیز کے لیے آتا تھا اور وہ اسے دے دی جاتی تھی، لیکن ابھی تک شام نہیں ہوتی تھی کہ دنیا و ما فیہا کی بہ نسبت اسے اسلام سب سے زیادہ محبوب اور پیارا بن چکا ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط الشيخين۔ أخرجه ابو يعلي: 3750، 3880، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12050 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12073»
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام پر جو چیز بھی مانگ لی جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دے دیتے تھے، ایک دفعہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بہت ساری بھیڑ بکریاں دینے کا حکم دیا، یہ زکوۃ کی بکریاں تھیں اور دو پہاڑوں کے درمیان والی گھاٹی ان سے بھر جاتی تھی۔ وہ بندہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور ان سے کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح کثرت سے دیتے ہیں کہ ان کو فاقے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2312، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12051 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12074»
سیدنا انسؓ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: تو مسلمان ہو جا۔ اس نے کہا: میں اپنے آپ کو اسلام کو ناپسند کرنے والا پاتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو مسلمان ہو جا، اگرچہ تو اس کو ناپسند کر رہا ہو۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط الشيخين۔ أخرجه ابويعلي: 3765، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12061 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12084»
نصر بن علی اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس شرط پر مسلمان ہوا کہ وہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی یہ شرط قبول کر لی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23079 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23468»
سیدنا تمیم داریؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر اہل کِتَابُ یا اہل کفر میں سے کوئی آدمی کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے بارے میں کیا سنت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اس کی زندگی اور موت میں اس کا سب سے زیادہ مستحق ہو گا۔
تخریج الحدیث: «قال الالباني: حسن صحيح (ابوداود: 2918)۔ أخرجه ابوداود: 2918، الترمذي: 2112، وابن ماجه: 2752، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16948 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17072»
سیدنا ابو امامہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فتح مکہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے نیچے کھڑا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی خوبصورت اور حسین باتیں ارشاد فرمائیں تھیں، ایک بات یہ بھی تھی: اہل کِتَابُ میں سے جو آدمی مسلمان ہو گا، اس کے دو اجر ہوں گے اور پھر جو حق ہمارا ہے، وہ اس کا بھی ہو گا اور جو ذمہ داری ہم پر ہے، وہ اس پر بھی ہو گی۔ اور جو آدمی مشرکوں میں سے مسلمان ہو گا تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور پھر جو حق ہمارا ہے، وہ اس کا بھی ہو گا اور جو ذمہ داری ہم پر ہے، وہ اس پر بھی ہو گی۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، وھذا السند متابَع۔ أخرجه الطبراني في الكبير: 7786، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22234 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22589»
سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنی لونڈی کو تعلیم دے اور اچھی تعلیم دے اور اس کی اخلاقی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کرے تو اس کو دو اجر ملیں گے، (اسی طرح اس کے لیے دو اجر ہیں) جو غلام اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کرے اور اپنے آقا کا بھی اور اہل کتاب کا وہ آدمی جو پہلے حضرت عیسی ؑکی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لایا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لایا، اس کے لیے بھی دو اجر ہیں۔
18. اسلام اور ہجرت کا پہلے والے گناہوں کو مٹا دینے، دورِ جاہلیت کے اعمال کی وجہ سے مؤاخذہ ہونے اور مسلمان ہو جانے والے کافر کے پہلے والے عمل کے حکم کا بیان
سیدنا عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کا خیال ڈال دیا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیعت کرنے کے لیے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری طرف پھیلادیا، لیکن اس وقت میں نے کہا: میں اس وقت تک آپ کی بیعت نہیں کروں گا، جب تک میرے سابقہ گناہ بخش نہیں دیئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمرو! کیا تو نہیں جانتا کہ ہجرت پہلے والے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، عمرو! کیا تجھے یہ علم نہیں ہے کہ اسلام بھی پہلے والے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط مسلم، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17827 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17981»
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں (اسلام قبول کر کے)اس دین میں نیکیاں کرتا رہوں تو کیا جاہلیت والی میری برائیوں کی وجہ سے میرا محاسبہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو بظاہر اور بباطن اسلام قبول کرے گا تو جاہلیت میں جو کچھ کیا ہو گا، اس کی بنا پر تیرا مؤاخذہ نہیں ہو گا، لیکن اگرتو بظاہر اسلام قبول کرے گا، نہ کہ بباطن تو اگلی پچھلی یعنی ہر برائی پر مؤاخذہ کیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 6921، ومسلم: 120، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 3596 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 3596»