اس (ابن منتفق) کی ایک اور روایت میں اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ایسے عمل پر میری رہنمائی فرمائیں کہ وہ مجھے جنت میں داخل کر دے اور آگ سے دور کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: واہ، واہ، تو نے بات تو بڑی مختصر کی ہے، لیکن سوال بہت بڑا کر دیا ہے، (بہرحال اب اس کا جواب یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ سے ڈر، اس کے ساتھ شرک نہ کر، نماز قائم کر، زکوۃ ادا کر، بیت اللہ کا حج کر اور رمضان کے روزے رکھ، اب سواری کے راستے سے پرے ہٹ جا۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15978»
سیدنا عمرو بن عبسہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تیرا دل اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع ہو جائے اور دوسرے مسلمان تیری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اس نے کہا: کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان۔ ایک روایت میں ہے: اچھا اخلاق۔ اس نے کہا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لائے۔ ایک روایت میں ہے: اس نے کہا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صبر و سماحت۔ اس نے کہا: افضل ایمان کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہجرت۔ اس نے کہا: ہجرت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: برائی کو ترک کر دینا۔ اس نے کہا: کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جہاد۔ اس نے کہا: جہاد کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب کافروں سے مقابلہ ہو تو ان سے قتال کرنا۔ اس نے کہا: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اور خود اس کا خون بہا دیا جائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر دو عمل ہے، وہ افضل ترین ہیں اور(ان کو کرنے والا سب سے زیادہ افضل ہے) الا یہ کہ کوئی آدمی ان ہی دو پر عمل کرے، حج مبرور یا عمرہ۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه عبد الرزاق: 20107، والطبراني في الكبير بنحوه، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17027 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17152»
ربعی بن حراش سے مروی ہے کہ بنوعامر کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا: کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خادمہ سے فرمایا: اس بندے نے اچھے انداز میں اجازت نہیں لی، اس لیے اس کی طرف جاؤ اور اس کو کہو کہ وہ یوں کہے: السلام علیکم، میں اندر آ سکتا ہوں۔ اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ خود سن لیے اور اس نے کہا: السلام علیکم، میں اندر آ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اجازت دی، اس نے کہا: پس میں داخل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: آپ کون سی چیز لے کر ہمارے پاس آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی میں خیر ہی لے کر آیا ہوں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، جو کہ یکتا ویگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور تم لات و عزی کو چھوڑ دو اور دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرو، ایک سال میں ایک ماہ کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو اور اپنی مالدار لوگوں سے زکوۃ کا مال لے کر اپنے فقیروں میں تقسیم کر دو۔ اس بندے نے کہا: کیا عمل کی کوئی ایسی قسم بھی ہے، جو آپ نہیں جانتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے بھلائی کی تعلیم دی ہے، لیکن علم کی بعض ایسی صورتیں بھی ہے کہ جن کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَا ذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} (بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔)(سورۂ لقمان: ۳۴)
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره۔ أخرجه مختصرا ابوداود: 5178، 5179، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23127 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23515»
سیدنا جریر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب ہم مدینہ منورہ سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک سوار ہماری طرف آنے کے لیے اپنی سواری کو جلدی چلا رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سوار کا ارادہ تم لوگ ہو۔ جب وہ ہمارے پاس پہنچا تو اس نے سلام کہا اور ہم نے اس کا جواب دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا: جی اپنے اہل و اولاد اور رشتہ داروں کے پاس سے آ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ اس نے کہا: جی اللہ کے رسول کو ملنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایمان کی تعلیم دیں کہ وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو یہ گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کر، زکوۃ ادا کر، رمضان کے روزے رکھ اور بیت اللہ کا حج کر۔ اس نے کہا: جی میں اقرار کرتا ہوں۔ اتنے میں اس کے اونٹ کی اگلی ٹانگ چوہوں کے بلوں میں گھس گئی، جس کی وجہ سے اونٹ گر گیا اور وہ آدمی بھی اپنے سر کے بل گرا اور فوت ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس بندے کو میرے پاس لاؤ۔ سیدنا عمار اور سیدنا حذیفہؓ جلدی سے گئے، اس آدمی کو بٹھایا اور کہا: اے اللہ کے رسول! بندہ تو فوت ہو گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اعراض کیا اور پھر فرمایا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ میں اس بندے سے اعراض کر رہا تھا، پس بیشک میں نے دیکھا کہ دو فرشتے اس کے منہ میں جنت کے پھل ڈال رہے تھے، اس سے مجھے پتہ چلا کہ بھوکا مرا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ ان لوگوں میں سے ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُہْتَدُوْنَ} (جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہِ راست پر چل رہے ہیں۔)(سورۂ انعام: ۸۲) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے اس بھائی کو سنبھال لو۔ پس ہم اسے اٹھا کر پانی کی طرف لے گئے، اس کو غسل دیا، خوشبو لگائی، کفن دیا اور قبر کی طرف اٹھا کر لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قبرکے کنارے پر بیٹھ گئے اور فرمایا: لحد بناؤ، شَق نہ بناؤ، کیونکہ لحد ہمارے لیے ہے اور شق دوسرے مذاہب والوں کے لیے ہے۔
تخریج الحدیث: «ھذا اسناد ضعيف لضعف ابي جناب يحييٰ بن ابي حيةالكلبي، وقوله اَللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا حسن بطرقه۔ أخرجه ابو نعيم في الحلية: 4/ 203، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19176 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19390»
۔ (دوسری سند) سیدنا جریرؓ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہم چل رہے تھے کہ ہمیں ابھرتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا …، پھر اسی قسم کی روایت کا ذکر کیا، البتہ یہ الفاظ بھی کہے: اس کے اونٹ کی اگلی ٹانگ چوہوں کے کھودے ہوئے کسی بل میں گھس گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے، جو عمل تو تھوڑا کرتے ہیں، لیکن اجر بہت زیادہ پاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن بطرقه۔ أخرجه الطبراني في الكبير: 2328، والطحاوي في شرح مشكل الآثار: 2829، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19177 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19391»
۔ (تیسری سند) ایک آدمی آیا اور اسلام میں داخل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک سفر میں اسے اسلام کی تعلیم دے رہے تھے، اتنے میں اس کے اونٹ کا پاؤں چوہے کے بل میں گھسا، (جس کی وجہ سے اونٹ گر گیا) اور اس نے اس آدمی کی گردن توڑ دی اور وہ فوت ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا: اس نے عمل تو تھوڑا کیا، لیکن اجر بہت زیادہ پایا۔ تین دفعہ یہ جملہ دوہرایا اور پھر فرمایا: لحد ہمارے لیے ہے اور شَق دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن بطرقه۔ أخرجه الطبراني في الكبير: 2330، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19158 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19371»
سیدناابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک بدّو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے لیے ایسے عمل کی نشاندہی کر دیں کہ اگر میں وہ عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز قائم کرو، فرض زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! میں نہ ان عبادات پر زیادتی کروں گا اور نہ ان میں کمی ہونے دوں گا، جب وہ چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو یہ بات بھلی لگے کہ وہ اہلِ جنت میں کوئی سے آدمی دیکھے تو وہ اس آدمی کو دیکھ لے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 1397، ومسلم: 14، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8515 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8496»
ابوسوید عبدی کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمرؓکی طرف گئے اور ان کے دروازے پر اجازت کے انتظار میں بیٹھ گئے، جب ہم نے دیکھا کہ ہمیں اجازت دینے میں بہت تاخیر ہو گئی ہے تو میں دروازے میں موجود ایک سوراخ کی طرف اٹھا اور وہاں سے اندر کی طرف جھانکنے لگا، وہ سمجھ گئے اور ہمیں اجازت دے دی اور ہم ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے کہا: تم میں سے کون ہے، جو ابھی میرے گھر میں جھانک رہا تھا؟ میں نے کہا: میں تھا، انھوں نے کہا: تو نے کس دلیل کی روشنی میں میرے گھر میں جھانکنے کو حلال سمجھ لیا؟ میں نے کہا: ہمیں اجازت دینے میں تاخیر کر دی گئی تھی، اس لیے میں نے دیکھ لیا، جان بوجھ کر تو میں نے نہیں کیا، پھر ہم لوگ سیدنا ابن عمرؓ سے سوال کرنے لگ گئے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا تھا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اللہ تعالیٰ کے ہی معبودِ برحق ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ میں نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! آپ جہاد کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے کہا: جو جہاد کرے گا، وہ اپنے لیے کرے گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لجھالة حال بركة بن يعلي التيمي وشيخِه ابي سويد العبدي، وھما من رجال التعجيل، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 5672 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 5672»
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اللہ تعالیٰ کے ہی معبودِ برحق ہونے کی شہادت دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ ایک آدمی نے کہا: اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد؟ انھوں نے کہا: جہاد اچھی چیز ہے، بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ حدیث ایسے بیان کی تھی۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، فيه علتان: انقطاعه، لأن سالما لم يسمعه من يزيد، وجھالة حال يزيد بن بشر السكسكي، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 4798 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 4798»
سیدنا جریر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اللہ تعالیٰ کے ہی معبودِ برحق ہونے کی شہادت دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره۔ أخرجه ابويعلي: 7507، والطبراني في الكبير: 2364، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19226 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19439»