1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الفتح الربانی
كِتَابُ الْإِيْمَانِ وَ الْإِسْلَامِ
ایمان اور اسلام کی کتاب
1. بابٌ فِيمَا جَاءَ فِي فَضْلِهِمَا
1. ایمان اور اسلام کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 51
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ وَأَيُّ الْأَعْمَالِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ((إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ)) قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سَنَامُ الْعَمَلِ)) قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((حَجٌّ مَبْرُورٌ))
سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا: کون سا عمل سب سے زیادہ فضلیت والا اور کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے بعد کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد، جو کہ افضل اور اشرف عمل ہے۔ اس نے کہا: پھر کون سا، اے اللہ کے رسول!؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حج مبرور۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن۔ أخرجه الترمذي: 1658، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 7863 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 7850»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 52
عَنْ عَمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَنْ مَاتَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قِيلَ لَهُ ادْخُلِ الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شِئْتَ))
سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے کہا جائے گا: تو جنت کے آٹھ دروازوں میں جس دروازے سے چاہتا ہے، داخل ہو جا۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره۔ أخرجه الطيالسي: 30، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 97 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 97»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 53
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِي أَبِي ثَنَا أَبُو النَّضْرِ ثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي بْنَ بَهْرَامَ ثَنَا شَهْرٌ يَعْنِي بْنَ حَوْشَبٍ ثَنَا ابْنُ غَنْمٍ عَنْ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ بِالنَّاسِ قَبْلَ غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحَ صَلَّى بِالنَّاسِ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَكِبُوا، فَلَمَّا أَنْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَعَسَ النَّاسُ فِي أَثَرِ الدُّلْجَةِ وَلَزِمَ مُعَاذٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَتْلُو أَثَرَهُ وَالنَّاسُ تَفَرَّقَتْ بِهِمْ رِكَابُهُمْ عَلَى جَوَادِّ الطَّرِيقِ تَأْكُلُ وَتَسِيرُ، فَبَيْنَمَا مُعَاذٌ عَلَى أَثَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَنَاقَتُهُ تَأْكُلُ مَرَّةً وَتَسِيرُ أُخْرَى عَثَرَتْ نَاقَةُ مُعَاذٍ فَكَبَحَهَا بِالزِّمَامِ فَهَبَّتْ حَتَّى نَفَرَتْ مِنْهَا نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كَشَفَ عَنْهُ قِنَاعَهُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا لَيْسَ مِنَ الْجَيْشِ رَجُلٌ أَدْنَى إِلَيْهِ مِنْ مُعَاذٍ، فَنَادَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((يَا مُعَاذُ!)) قَالَ: لَبَّيْكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: ((أُدْنُ دُونَكَ)) فَدَنَا مِنْهُ حَتَّى لَصِقَتْ رَاحِلَتُهُمَا أَحَدَاهُمَا بِالْأُخْرَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((مَا كُنْتُ أَحْسِبُ النَّاسَ مِنَّا كَمَكَانِهِمْ مِنَ الْبُعْدِ)) فَقَالَ مُعَاذٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! نَعَسَ النَّاسُ فَتَفَرَّقَتْ بِهِمْ رِكَابُهُمْ تَرْتَعُ وَتَسِيرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((وَأَنَا كُنْتُ نَاعِسًا)) فَلَمَّا رَأَى مُعَاذٌ بُشْرَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ وَخَلْوَتَهُ لَهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ائْذَنْ لِي أَسْأَلُكَ عَنْ كَلِمَةٍ قَدْ أَمْرَضَتْنِي وَأَسْقَمَتْنِي وَأَحْزَنَتْنِي، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((سَلْنِي عَمَّا شِئْتَ)) فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! حَدِّثْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِيَ الْجَنَّةَ لَا أَسْأَلُكَ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهِ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((بَخٍ بَخٍ بَخٍ لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِيمٍ لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِيمٍ)) ثَلَاثًا، ((وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ)) فَلَمْ يُحَدِّثْهُ بِشَيْءٍ إِلَّا قَالَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَعْنِي أَعَادَهُ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ حِرْصًا لِكَيْمَا يُتْقِنُهُ عَنْهُ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا حَتَّى تَمُوتَ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ)) فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَعِدْ لِي، فَأَعَادَهَا لَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ يَا مُعَاذُ بَرَأْسِ هَذَا الْأَمْرِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ)) فَقَالَ مُعَاذٌ: بَلَى بِأَبِي وَأُمِّي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَحَدِّثْنِي، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنْ قِوَامَ هَذَا الْأَمْرِ إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَأَنَّ ذِرْوَةَ السَّنَامِ مِنْهُ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَيَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدِ اعْتَصَمُوا وَعَصَمُوا دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا شَحَبَ وَجْهٌ وَلَا اغْبَرَّتْ قَدَمٌ فِي عَمَلٍ تُبْتَغَى فِيهِ دَرَجَاتُ الْجَنَّةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَفْرُوضَةِ كَجِهَادٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا ثَقَّلَ مِيزَانَ عَبْدٍ كَدَابَّةٍ تَنْفُقُ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ يَحْمِلُ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ))
سیدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو لے کر نکلے، جب صبح ہوئی تو نمازِ فجر پڑھائی اور لوگ پھر سوار ہوئے اور چل پڑے، جب سورج طلوع ہوا تو رات کو چلتے رہنے کی وجہ سے لوگ اونگھنے لگ گئے، جبکہ سیدنا معاذ ؓ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، جبکہ لوگ سواریوں کو چرانے کے لیے ان کو لے کر بڑے راستوں کی طرف الگ الگ ہو گئے، بہرحال اُدھر سیدنا معاذؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چل رہے تھے، ان کی اونٹنی چرتی بھی گئی اور چلتی بھی رہی، اچانک وہ پھسل پڑھی، سیدنا معاذؓ نے لگام کھینچی، لیکن وہ دوڑنے لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی بھی اس کی وجہ سے بدکنے لگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سے کپڑا اٹھایا اور پیچھے متوجہ ہوئے اور دیکھا کہ پورے لشکر میں سے سیدنا معاذ ؓہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا: اے معاذ! انھوں نے کہا: جی میں حاضر ہوں، اے اللہ کے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے قریب ہو گئے کہ ایک سواری دوسری کے ساتھ مل گئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا یہ خیال تو نہیں تھا کہ لوگ اس قدر ہم سے دور رہ جائیں گے۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: اے اللہ کے نبی! لوگوں کو اونگھ آنے لگ گئی اور ان کی سواریاں چرنے کے لیے دور دور تک بکھر گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں بھی اونگھ رہا ہوں۔ بہرحال جب سیدنا معاذؓ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ خوش ہیں اور ان کے ساتھ خلوت میں ہیں تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایک ایسی بات پوچھ لینے کی اجازت دیں، جس نے مجھے بیمار اور پریشان کر رکھا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتے ہو، سوال کر لو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ مجھے ایسا عمل بتا دیں کہ جو مجھے جنت میں داخل کر دے میں آپ سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے سوال نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: واہ، واہ، واہ،تم نے بڑے عمل کے بارے میں سوال کر دیا ہے، تم نے تو بڑے عمل کے بارے میں سوال کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ یہ جملہ دوہرایا اور پھر فرمایا: لیکن یہ عمل اس آدمی کے لیے آسان ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کر لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید کوئی بات بیان نہ کی، البتہ ان ہی الفاظ کو تین دفعہ دوہرایا تاکہ سیدنا معاذؓاس کو اچھی طرح یاد کر لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (وہ عمل یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ اورآخرت کے دن پر ایمان لاؤ، نماز قائم کرو، صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ (اور پھر تم اس سلسلے کو جاری رکھو) یہاں تک کہ اسی پر وفات پا جاؤ۔ انھوں نے آگے سے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ بات دوبارہ ارشاد فرماؤ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ دوہرا دی، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اگر تم چاہتے ہو تو میں اس دین کی اصل اور اس کی کوہان کی چوٹی کی وضاحت کر دیتا ہوں۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے بیان کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس دین کی اصل یہ ہے کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہوں، اور اس دین کا سہارا اور ستون یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوۃ ادا کی جائے اور اس کی کوہان کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے، مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے سے قتال کروں، جب تک اس طرح نہ ہو جائے کہ وہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور یہ شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ یکتا و یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جب لوگ یہ امور سر انجام دیں گے تو وہ خود بھی بچ جائیں گے اور اپنے خونوں اور مالوں کو بھی بچا لیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! فرض نماز کے بعد جنت کے درجات کو پانے کیلئے جہاد فی سبیل اللہ ہی ایک ایسا عمل ہے، جس میں چہرے کو متغیر کیا جائے اور قدموں کو خاک آلود کیا جائے او ربندے کے ترازو کو سب سے زیادہ بھاری کرنے والا یہ عمل ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی چوپایہ خرچ کرو یا اللہ کے راستے میں کسی کو سواری دے دو۔
تخریج الحدیث: «صحيح بطرقه و شواهده۔ أخرجه ابن ماجه: 72، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22122 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22473»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 54
عَنِ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذْ ذَاكَ وَنَحْنُ بِالْمَدِينَةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((تَجِيءُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَتَجِيءُ الصَّلَاةُ فَتَقُولُ: يَا رَبِّ! أَنَا الصَّلَاةُ، فَيَقُولُ: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ، فَتَجِيءُ الصَّدَقَةُ فَتَقُولُ: يَا رَبِّ! أَنَا الصَّدَقَةُ، فَيَقُولُ: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ، ثُمَّ يَجِيءُ الصِّيَامُ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ! أَنَا الصِّيَامُ، فَيَقُولُ: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ، ثُمَّ يَجِيءُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَلِكَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ، ثُمَّ يَجِيءُ الْإِسْلَامُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ! أَنْتَ السَّلَامُ وَأَنَا الْإِسْلَامُ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ، بِكَ الْيَوْمَ آخُذُ وَبِكَ أُعْطِي، فَقَالَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ: {وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ}))
حسن بصری کہتے ہیں: ہم مدینہ منورہ میں تھے کہ سیدنا ابوہریرہؓ نے ہمیں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت والے دن اعمال آئیں گے، (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) نماز آئے گی اور کہے گی: اے میرے ربّ! میں نماز ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے۔ اسی طرح صدقہ آ کر کہے گا: اے میرے ربّ! میں صدقہ ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے۔ پھر روزہ آ کر کہے گا: اے میرے ربّ! میں روزہ ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے۔ پھر دوسرے اعمال آئیں گے اور اللہ تعالیٰ یہی کہتا رہے گا کہ تم خیر پر ہو، پھر اسلام آئے گااور کہے گا: اے میرے ربّ! تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے اورتیرے ذریعے آج میں مؤاخذہ کروں گا اور تیرے ذریعے عطا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا: {وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} … جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔ (سورۂ آل عمران: ۸۵)
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، عباد بن راشد ضعفه ابن معين و ابوداود و ابن حبان۔ أخرجه ابويعلي: 6231، والطبراني في الاوسط: 7607، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8742 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8727»

حكم: ضعیف

2. فِي بَيَانِ الإِيمَانِ وَالإِسْلامِ وَالإِحْسَانِ
2. ایمان، اسلام اور احسان کی وضاحت کا بیان
حدیث نمبر: 55
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ ذَاتَ يَوْمٍ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى (وَفِي رِوَايَةٍ لَا نَرَى) عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ مَا الْإِسْلَامُ؟ فَقَالَ: ((الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا)) قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: ((الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ)) قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: ((مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ)) قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: ((أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ)) قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، قَالَ: فَلَبِثَ مَلِيًّا، (وَفِي رِوَايَةٍ فَلَبِثَ ثَلَاثًا) فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((يَا عُمَرُ! أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟)) قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ))
سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ہمارے پاس ایک آدمی آیا، اس کے کپڑے بہت زیادہ سفید اور بال بہت زیادہ سیاہ تھے، نہ تو اس پر سفر کی کوئی علامت نظر آ رہی تھی اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا، بہرحال وہ آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنوں کے ساتھ ملا دیئے اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رانوں پر رکھ دیئے اور کہا: اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتاؤ کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔ اس نے آگے سے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ بہرحال اس نے پھر سوال کیا اور کہا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور ساری کی ساری تقدیر، وہ اچھی ہو یا بری، پر ایمان لائے۔ اس نے کہا: جی، آپ نے سچ کہا ہے۔ اس نے تیسرا سوال کرتے ہوئے کہا: اب آپ مجھے احسان کے بارے میں بتائیں، احسان کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے پھر سوال کیا: آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسئول، قیامت کے بارے میں سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔ اس نے کہا: تو پھر آپ مجھے اس کی علامتوں کے بارے میں بتا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہیں: لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی، تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسموں والے بکریوں کے چرواہے عمارتوں پر غرور کریں گے۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں: پھر وہ بندہ چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ زمانے، ایک روایت کے مطابق تین دنوں تک اس کے بارے میں خاموش رہے اور پھر مجھ سے فرمایا: عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سائل کون تھا؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ حضرت جبریلؑ تھے، وہ تم لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 8، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 367 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 367»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 56
عَنْ أَبِي عَامِرِ الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ وَفِيهِ: ثُمَّ وَلَّى (أَيْ السَّائِلُ) فَلَمَّا لَمْ نَرَ طَرِيقَهُ بَعْدُ قَالَ (أَيْ النَّبِيُّ) صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((سُبْحَانَ اللَّهِ! ثَلَاثًا، هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا جَاءَنِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُهُ إِلَّا أَنْ تَكُونَ هَذِهِ الْمَرَّةَ))
سیدنا ابو عامر اشعریؓ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: پھر وہ سوال کرنے والا آدمی چلا گیا، جب ہمیں اس کا کوئی راستہ نظر نہ آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ! (یعنی بڑا تعجب ہے) یہ جبرائیل ؑتھے جو لوگوں کو دین سکھلانے کے لیے آئے تھے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ جب بھی میرے پاس آتے تھے تو میں ان کو پہچانتا ہوتا تھا، ماسوائے اس دفعہ کے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف علي نكارة في بعض الفاظه، وقد اختلف فيه علي شھر، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17167 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17299»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 57
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا لَهُ فَجَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! حَدِّثْنِي بِالْإِسْلَامِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((الْإِسْلَامُ أَنْ تُسْلِمَ وَجْهَكَ لِلَّهِ وَتَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ)) قَالَ: إِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: ((إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ أَسْلَمْتَ)) قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَحَدِّثْنِي مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: ((الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَتُؤْمِنَ بِالْمَوْتِ وَبِالْحَيَاةِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَتُؤْمِنَ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَالْحِسَابِ وَالْمِيزَانِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ)) قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ قَالَ: ((إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ آمَنْتَ)) قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! حَدِّثْنِي مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((الْإِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَرَهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَحَدِّثْنِي مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((سُبْحَانَ اللَّهِ! فِي خَمْسٍ مِنَ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا هُوَ {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} وَلَكِنْ إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ بِمَعَالِمَ لَهَا دُونَ ذَلِكَ)) قَالَ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَحَدِّثْنِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا رَأَيْتَ الْأَمَةَ وَلَدَتْ رَبَّتَهَا أَوْ رَبَّهَا وَرَأَيْتَ أَصْحَابَ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا بِالْبُنْيَانِ وَرَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْجِيَاعَ الْعَالَةَ كَانُوا رُؤُوسَ النَّاسِ فَذَلِكَ مِنْ مَعَالِمِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا)) قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَنْ أَصْحَابُ الشَّاءِ وَالْحُفَاةُ الْجِيَاعُ الْعَالَةُ؟ قَالَ: ((الْعَرَبُ))
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، اتنے میں جبرائیلؑآ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس طرح بیٹھ گئے کہ اپنی ہتھیلیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بیان کرو کہ وہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کر دے اور یہ شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ امور سرانجام دے دوں گا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، جب تو یہ اعمال کرے گا تو تو مسلمان ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کِتَابُ پر، نبیوں پر، موت اور موت کے بعددوبارہ زندہ ہونے پر، جنت و جہنم پر، حساب اور میزان پر اور ساری کی ساری تقدیر پر، وہ اچھی ہو یا بری۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ اعمال کروں گا تو مؤمن ہو جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، جب تو ایسا کرے گا تو مؤمن ہو جائے گا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ تو بتلا د و کہ احسان کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح عمل کرے کہ گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو بیشک وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بیان کرو کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! بڑا تعجب ہے، اس کا تعلق تو غیب والی ان پانچ چیزوں سے ہے، جن کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ } (بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میںمرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔) (سورۂ لقمان: ۳۴)، البتہ اگر تو چاہتا ہے تو میں تجھے اس کی علامتیں بیان کر دیتا ہوں۔ انھوں نے کہا: جی بالکل، اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بیان کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو دیکھے گا کہ لونڈی اپنی مالکہ یا آقا کو جنم دے گی اور بکریوں کے چرواہے عمارتوں میں فخر کرنے لگیں گے اور ننگے پاؤں والے بھوکے اور فقیر لوگوں کے سردار بن جائیں گے، یہ قیامت کی علامتیں ہیں۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بکریوں کے چرواہوں اور ننگے پاؤں والے بھوکوں اور فقیروں سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عرب۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن۔ أخرجه البزار: 24، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 2924 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2924»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 58
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ وَفِيهِ: ((وَإِذَا كَانَتِ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْجُفَاةُ، وَفِيهِ: وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ)) وَفِيهِ بَعْدَ ذِكْرِ الْآيَةِ زِيَادَةُ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ)) فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ: ((هَذَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ))
سیدنا ابوہریرہؓ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: جب ننگے جسموں اور ننگے پاؤں والے اکھڑ مزاج اور سنگ دل لوگ … اس میں مزید یہ الفاظ ہیں: جب چھوٹی چھوٹی بھیڑ بکریوں کے چرواہے عمارتوں میں فخر کریں گے۔ آیت کے بعد یہ الفاظ بھی اس روایت میں ہیں: پھر وہ آدمی چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کو دوبارہ میرے پاس بلاؤ۔ لوگوں نے اسے تلاش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لانا چاہا، لیکن وہ سرے سے اسے دیکھ ہی نہ سکے (کہ کہاں گیا ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیلؑ تھے، جو لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4777، ومسلم: 9،10، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 9501 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 9497»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 59
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((الْإِسْلَامُ عَلَانِيَةٌ وَالْإِيمَانُ فِي الْقَلْبِ)) قَالَ: ثُمَّ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: ((التَّقْوَى هَاهُنَا))
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام (اعضاء سے متعلقہ) علانیہ چیز ہے اور ایمان دل سے متعلقہ مخفی چیز ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور پھر فرمایا: تقوی یہاں ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، تفرد به علي بن مسعدة، وھو ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواھد، وأما قوله التقوي ھھنا فله شاھد من حديث ابي ھريرة عند مسلم: 2564۔ أخرجه ابو يعلي: 2923، والبزار: 20، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12381 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12408»

حكم: ضعیف

3. بَابٌ فِيمَنْ وَفَدَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الْعَرَبِ لِلسُّؤَالِ عَنِ الْإِيْمَانِ وَ الْإِسْلَامِ وَ أَرْكَانِهِمَا
3. ایمان اور اسلام اور ان کے ارکان کے بارے میں سوال کرنے کے لئے عرب لوگوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا بیان
حدیث نمبر: Q60
0

1    2    3    4    5    Next