سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر حضرت آدمؑ کی پشت (یعنی ان کی اولاد)سے مضبوط عہد لیا، اس کا طریق کار یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیٹھ سے وہ ساری اولاد نکالی، جو اس نے پیدا کرنی تھی اور ان کو آپؑ کے سامنے چیونٹیوں کی طرح بکھیر دیا اور پھر ان سے آمنے سامنے کلام کرتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے پہل یہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات رجال الشيخين غير كلثوم بن جبر، فمن رجال مسلم، ورجح الحافظ ابن كثير في التفسير وقفه علي ابن عباس۔ أخرجه النسائي في الكبري: 11191، والحاكم: 2/ 544، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 2455 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2455»
سیدنا ابی بن کعبؓ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {وَ اِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّاتِہِمْ وَ أَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ … }کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان کو روحوں کی شکل میں جمع کیا، پھر ان کی تصویریں بنا کر ان کو بلوایا، پس یہ بولے، پھر ان سے ایک مضبوط عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اور کہا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، میں سات آسمانوں اور سات زمینوں کو تم پر گواہ بناتا ہوں اور میں تمہارے باپ آدمؑ کو بھی تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیامت والے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں تو اس چیز کا علم ہی نہیں تھا۔ جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی ربّ، پس تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، عنقریب میں تمہاری طرف اپنے پیغمبروں کو بھیجوں گا، وہ تمہیں میرے وعدے اور میثاق کو یاد کرائیں گے اور میں تم پر کتابیں بھی نازل کروں گا۔ ان سب نے جواباً کہا: ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی ربّ نہیں ہے، پس انھوں نے اس چیز کا اقرار کیا۔
تخریج الحدیث: «اثر ضعيف، محمد بن يعقوب الربالي مستور۔أخرجه الحاكم: 2/ 323، والبھيقي في الاسماء والصفات: ص 368، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21232 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21552»
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جہنمی آدمی سے کہا جائے گا: اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ زمین پر جو چیزیں بھی ہیں، کیا تو (اس عذاب سے بچنے کے لیے) وہ فدیے میں دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تو تجھ سے اس سے آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تجھ سے یہ عہد لیا تھا، جبکہ تو آدم ؑ کی پیٹھ میں تھا، کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، لیکن تو نے انکار کر دیا تھا اور (اسی چیز پر ڈٹ گیا کہ) تو نے میرے ساتھ شرک ہی کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3334، ومسلم: 2805، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12289 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12314»
عبد الرحمن بن غنم، جن کو سیدنا عمرؓ نے لوگوں کو فقہ کی تعلیم دینے کے لیے شام بھیجا تھا، بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے ان کو بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز اپنے یعفور نامی گدھے پر سوار ہوئے، اس کی رسی کھجور کے پتوں کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معاذ! تم بھی سوار ہو جاؤ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ چلیں (میں پیدل ہی ٹھیک ہوں)، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: تم سوار ہو جاؤ۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار ہو گیا، ہوا یوں کہ گدھا گر پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر مسکرانے لگے اور میں دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا، پھر دوسری اور تیسری بار بھی ایسے ہی ہوا، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک پیچھے کیا اور کوڑے یا چھڑی کے ساتھ میری کمر پر مارا اور فرمایا: معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس بیشک اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے کو چلے، اور پھر اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور میری کمر پر مارا اور فرمایا: اے معاذ! اے معاذ کی ماں کے بیٹے! کیا تم یہ جانتے ہو کہ اگر بندے ایسے ہی کریں تو اللہ تعالیٰ پر ان کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس بیشک جب بندے ایسے ہی کریں تو ان کا اللہ تعالیٰ پر حق یہ ہے کہ وہ ان کو جنت میں داخل کر دے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح دون القصة في اوله، وھذا اسناد ضعيف لضعف شھر بن حوشب۔ وأخرج آخره البخاري: 2856، ومسلم: 30 وھو الحديث الآتي، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22073 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22423»
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاذ بن جبل ؓ کے پاس آئے اور کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی عجیب سی حدیث بیان کرو، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ بات یہ ہے کہ میں گدھے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے معاذبن جبل! میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، … پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث ذکر کی …، البتہ اس میں جنت میں داخل کرنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کو عذاب نہیں دے گا اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: آخر میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کر کے خوشخبری نہ سنا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري ومسلم، وانظر الحديث المتقدم، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21993 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22343، 22378»
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاذ بن جبل ؓ کے پاس آئے اور کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی عجیب سی حدیث بیان کرو، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ بات یہ ہے کہ میں گدھے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے معاذبن جبل! میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، … پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث ذکر کی …، البتہ اس میں جنت میں داخل کرنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کو عذاب نہیں دے گا اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: آخر میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کر کے خوشخبری نہ سنا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري ومسلم، وانظر الحديث المتقدم، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21993 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22343، 22378»
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا تم جانتے ہوں کہ لوگوں کا اللہ تعالیٰ پر اور اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ پر ان کا حق یہ ہو گا کہ وہ ان کو عذاب نہ دے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح۔ أخرجه الحاكم: 1/ 517، والبزار: 3089، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8085 ترقیم بيت الأفكار الدولية:0»
سیدنا طفیل بن سخبرہؓ، جو کہ سیدہ عائشہؓ کا اخیافی بھائی ہے، سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے یہ خواب دیکھا کہ میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا اور ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: اگر تم عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ کہتے تو تم بہترین قوم تھے، انھوں نے کہا: تم مسلمان بھی بہترین قوم ہوتے، اگر صرف یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے جو) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتا ہے۔ پھر میں عیسائیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم عیسائی ہیں، میں نے کہا: اگر تم حضرت مسیح ؑکو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ کہتے تو تم بہترین لوگ ہوتے، لیکن انھوں نے آگے سے کہا: اگر تم بھی یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے) جوا للہ تعالیٰ چاہتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتا ہے تو تم بھی بہترین قوم ہوتے۔ جب صبح ہوئی تو بعض لوگوں کو یہ خواب بیان کرنے کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو ساری بات بتلا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے کسی کو یہ خواب بتلایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتلا بھی دیا ہے، بات یہ ہے کہ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، (میں اسے ناپسند تو کرتا تھا) لیکن تم کو منع کرنے سے شرم و حیا مانع تھی، (اب بات کھل گئی ہے لہٰذا) تم یہ نہ کہا کرو کہ (وہی کچھ ہوتا ہے) جو اللہ چاہتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه الحاكم: 3/ 463، والبيھقي في دلائل النبوة: 7/ 22، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة:20694 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 20970»
سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں بعض اہل کِتَابُ کو ملا ہوں اور انھوں نے مجھے کہا: تم (مسلمان) بڑے اچھے لوگ ہو، کاش تم یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے) جو اللہ چاہتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتا ہے، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں بھی تمہاری اس بات کو ناپسند کرتا تھا، آئندہ اس طرح کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه ابن ماجه: 2118، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23339 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23728»
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: جو کچھ اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کر دیا ہے، صرف (وہ ہوتا ہے) جو یکتا و یگانہ اللہ چاہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره۔ أخرجه ابن ماجه: 2117، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 1839 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 1839»