1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزهد والرقائق
کتاب: دنیا سے نفرت دلانے اور دل کو نرم کرنے والی احادیث کا بیان
حدیث نمبر: 1875
1875 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ طَعَامٍ، ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، حَتَّى قُبِضَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ تین دن برابر انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1875]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 1 باب قول الله تعالى (كلوا من طيبات ما رزقناكم»

964. باب لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إِلا أن تكونوا باكين
964. باب: جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ان کی بستیوں میں، سوائے روتے ہوئے، نہ جایا جائے
حدیث نمبر: 1876
1876 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَدْخُلُوا عَلَى هؤُلاَءِ الْمَعَذَّبِينَ، إِلاَّ أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ فإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَلاَ تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ لاَ يُصِيبُكُمْ مَا أَصَابَهُمْ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان عذاب والوں کے آثار سے اگر تمہارا گزر ہو تو روتے ہوئے گزرو، اگر تم اس موقع پر رو نہ سکو تو ان سے گزرو ہی نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ان کا سا عذاب آجائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1876]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 53 باب الصلاة في مواضع الخسف والعذاب»

حدیث نمبر: 1877
1877 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْضَ ثَمُودَ، الْحِجْرَ، فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا، وَاعْتَجَنُوا بِهِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُهَرِيقُوا مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا، وَأَنْ يَعْلِفُوا الإِبِلَ الْعَجِينَ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَقُوا مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي كَانَ تَرِدُهَا النَّاقَةُ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثمود کی بستی حجر میں پڑاؤ کیا تو وہاں کے کنوؤں کا پانی اپنے برتنوں میں بھر لیا اور آٹا بھی اس پانی سے گوندھ لیا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جو پانی انہوں نے اپنے برتنوں میں بھر لیا ہے اسے انڈیل دیں اور گندھا ہوا آٹا جانوروں کو کھلا دیں۔ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1877]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 17 باب قول الله تعالى (وإلى ثمود أخاهم صالحًا»

965. باب الإِحسان إِلَى الأرملة والمسكين واليتيم
965. باب: بیوہ، یتیم اور مسکین کے ساتھ احسان کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1878
1878 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ، أَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیواؤں اور مسکینوں کے کام آنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے، یا رات بھر عبادت اور دن کو روزے رکھنے والے کے برابر ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1878]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 69 كتاب النفقات: 1 باب فضل النفقة على الأهل»

966. باب فضل بناء المساجد
966. باب: مسجدیں بنانے کی فضیلت
حدیث نمبر: 1879
1879 صحيح حديث عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ الْخَوْلاَنِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَقُولُ، عِنْدَ قَوْلِ النَّاسِ فِيهِ، حِينَ بَنى مَسْجِدَ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُمْ أَكْثَرْتُمْ وَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ بَنى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللهِ، بَنَى اللهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ
عبید اللہ خولانی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے متعلق لوگوں کی باتوں کو سن کر فرمایا: تم لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کی ہیں، حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے مسجد بنائی اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک گھر جنت میں اس کے لیے بنائے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1879]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 65 باب من بنى مسجدًا»

967. باب تحريم الرياء
967. باب: نمائش اور ریاکاری حرام ہے
حدیث نمبر: 1880
1880 صحيح حديث جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللهُ بِهِ
حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کسی نیک کام کے نتیجہ میں) جو شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی بدنیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لئے نیک کام کرے اللہ بھی قیامت کے دن اس کو سب کو دکھلا دے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1880]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 36 باب الرياء والسمعة»

968. باب حفظ اللسان
968. باب: زبان کی حفاظت
حدیث نمبر: 1881
1881 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ، مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا، يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ، أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ الْمَشْرِقِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کو ارشاد فرماتے سنا، کہ بندہ ایک بات زبان سے نکالتا اور اس کے متعلق سوچتا نہیں (کہ کتنی کفر اور بے ادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گر پڑتا ہے جتنا مشرق سے مغرب دور ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1881]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 23 باب حفظ اللسان»

969. باب عقوبة من يأمر بالمعروف ولا يفعله وينهى عن المنكر ويفعله
969. باب: نیکی کا حکم دینے مگر خود نہ کرنے اور برائی سے روکنے لیکن خودنہ رکنے کی سزا
حدیث نمبر: 1882
1882 صحيح حديث أُسَامَةَ قِيلَ لَهُ: لَوْ أَتَيْتَ فُلاَنًا فَكَلَّمْتَهُ قَالَ: إِنَّكُمْ لَتُرَوْنَ أَنِّي لاَ أُكَلِّمُهُ إِلاَّ أُسْمِعُكُمْ إِنِّي أُكَلِّمُهُ فِي السِّرِّ، دُونَ أَنْ أَفْتَحَ بَابًا لاَ أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ وَلاَ أَقُولُ لِرَجُلٍ، أَنْ كَانَ عَلَيَّ أَمِيرًا: إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ، بَعْدَ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: وَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ، فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ، فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ، فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلاَنُ مَا شَأْنُكَ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ قَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلاَ آتِيهِ، وَأَنْهَاكمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ اگر آپ فلاں صاحب (عثمان رضی اللہ عنہ) کے یہاں جا کر ان سے گفتگو کرو تو اچھا ہے (تاکہ وہ یہ فساد دبانے کی تدبیر کریں) انہوں نے کہا کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تم کو سنا کر (تمہارے سامنے ہی) بات کرتا ہوں، میں تنہائی میں ان سے گفتگو کرتے ہوں اس طرح کہ فساد کا دروازہ نہیں کھولتا ٗ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سب سے پہلے میں فساد کا دروازہ کھولوں اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہیں کہتا کہ جو شخص میرے اوپر سردار ہو وہ سب لوگوں میں بہتر ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی ہے وہ کیا ہے؟ حضرت اسامہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے سنا تھا کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا اپنی چکی پر گردش کیا کرتا ہے۔ جہنم میں ڈالے جانے والے اس کے قریب آکر جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے ٗ اے فلاں! آج یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ کیا تم ہمیں اچھے کام کرنے کیلئے نہیں کہتے تھے ٗ اور کیا تم برے کاموں سے ہمیں منع نہیں کیا کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا جی ہاں ٗ میں تمہیں تو اچھے کاموں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا۔ برے کاموں سے تمہیں منع بھی کرتا تھا ٗ لیکن خود کیا کرتا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1882]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 10 باب صفة النار وأنها مخلوقة»

970. باب النهي عن هتك الإنسان ستر نفسه
970. باب: اپنے پوشیدہ گناہ ظاہر کر کے اپنی توہین آپ کرنے کی ممانعت
حدیث نمبر: 1883
1883 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى، إِلاَّ الْمُجَاهِرينَ وَإِنَّ مِنَ الْمَجَانَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلاً، ثُمَّ يُصْبِحُ، وَقَدْ سَتَرَهُ اللهُ، فَيَقُولُ: يَا فُلاَنُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللهِ عَنْهُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں!میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1883]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 60 باب ستر المؤمن على نفسه»

971. باب تشميت العاطس وكراهة التثاؤب
971. باب: چھینکنے والے کا جواب اور جماہی کی کراہت
حدیث نمبر: 1884
1884 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: عَطَسَ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الآخَرَ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ: هذَا حَمِدَ اللهَ، وَهذَا لَمْ يَحْمَدِ اللهَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو اصحاب کو چھینک آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کا جواب یرحمک اللّٰہ (اللہ تم پر رحم کرے) سے دیا اور دوسرے کا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ اس نے الحمدللّٰہ کہا تھا (اس لئے اس کا جواب دیا) اور دوسرے نے الحمد للّٰہ نہیں کہا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1884]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 123 باب الحمد للعاطس»


Previous    1    2    3    Next