حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا۔ پھر فرمایا کہ جا اور ان ملائکہ کو سلام کر ٗ دیکھنا کن لفظوں میں وہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام (گئے اور) کہا ٗ السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا ٗ السلام علیک و رحمۃ اللہ۔ انہوں نے ورحمۃ اللہ کا جملہ بڑھا دیا ٗ پس جو کوئی بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی شکل اور قامت پر داخل ہوگا ٗ آدم علیہ السلام کے بعد انسانوں میں اب تک قد چھوٹے ہوتے رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1807]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 1 باب خلق آدم، صلوات الله عليه، وذريته»
939. باب في شدة حر نار جهنم وبعد قعرها، وما تأخذ من المعذبين
939. باب: دوزخ کی تپش کی شدت اور اس کی گہرائی کا بیان
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٗ تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں حصہ ہے۔ کسی نے پوچھا ٗ یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کیلئے تو) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1808]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 10 باب صفة النار وأنها مخلوقة»
940. باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء
940. باب: ظالم اور جابر لوگ آگ میں جائیں گے اور کمزور لوگ جنت میں جائیں گے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے بحث کی ٗ دوزخ نے کہا میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے ٗ تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی۔ جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1809]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 50 سورة ق: 1 باب قوله وتقول هل من مزيد»
سیّدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم برابر یہی کہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور ہے کیا کچھ اور ہے؟ آخر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی بس بس میں بھر گئی، تیری عزت کی قسم!اور اس کا بعض حصہ بعض کو کھانے لگے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1810]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 12 باب الحلف بعزة الله وصفاته وكلماته»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والوں! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں گے کہ ہاں یہ موت ہے اور ان میں سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہو گا۔ پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا اور آواز دینے والا جنتیوں سے کہے گا کہ اب تمہارے لیے ہمیشگی ہے، موت تم پر کبھی نہ آئے گی اور اسے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے، تم پر بھی موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی۔ ”وانذرھم یوم الحسرۃ“ الخ (اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو۔ جبکہ اخیر فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے (یعنی دنیا دار لوگ) اور ایمان نہیں لاتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1811]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 19 سورة مريم: 1 باب قوله وأنذرهم يوم الحسرة»
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو!تمہیں اب موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو!تمہیں بھی اب موت نہیں آئے گی۔ اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہو جائیں گے اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہو جائیں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1812]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”کافر کے دونوں شانوں کے درمیان تیز چلنے والے کے لئے تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہوگا۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1813]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ٗ آپ فرما رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے (لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں ہر بد خو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1814]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 68 سورة ن والقلم: 1 باب عتُل بعد ذلك زنيم»
حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ٗ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر فرمایا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں پھر آپ نے ارشاد فرمایا اذ انبعث اشقھا یعنی اس اونٹنی کو مار ڈالنے کے لیے ایک مفسد بدبخت (قدار نامی) جو اپنی قوم میں ابو زمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا، اٹھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہم بستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے انہیں ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ایک کام جو تم میں ہر شخص کرتا ہے اسی پر تم دوسروں پر کس طرح ہنستے ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1815]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 91 سورة والشمس: 1 باب حدثنا موسى بن إسماعيل»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحی خزاعی کو دیکھا کہ جہنم میں وہ اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا اور یہی عمرو وہ پہلا شخص ہے جس نے سائبہ کی رسم نکالی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1816]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 9 باب قصة خزاعة»