1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب اللباس والزينة
کتاب: لباس اور زینت کے بیان میں
حدیث نمبر: 1367
1367 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الَّذِينَ يَصْنَعُونَ هذِهِ الصُّوَرَ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ یہ مورتیں بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب کیا جائے گا (اور) ان سے کہا جائے گا کہ جس کو تم نے بنایا ہے اب اس میں جان بھی ڈالو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1367]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 89 باب عذاب المصورين يوم القيامة»

حدیث نمبر: 1368
1368 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللهِ، يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الْمُصَوِّرُونَ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے پاس قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کو سخت سے سخت تر عذاب ہو گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1368]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 89 باب عذاب المصورين يوم القيامة»

حدیث نمبر: 1369
1369 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبَّاسٍ إِنِّي إِنْسَانٌ إِنَّمَا مَعِيشَتِي مِنْ صَنْعَةِ يَدِي، وَإِنِّي أَصْنَعُ هذِهِ التَّصَاوِيرَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاِسٍ: لاَ أُحَدِّثُكَ إِلاَّ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فَإِنَّ اللهِ مُعَذِّبَهُ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيهَا أَبَدًا فَرَبَا الرَّجُلُ رَبْوَةً شَدِيدَةً، وَاصْفَرَّ وَجْهُهُ فَقَالَ: وَيْحَكَ إِنْ أَبَيْتَ إِلاَّ أَنْ تَصْنَعَ، فَعَلَيْكَ بِهذَا الشَّجَرِ، كُلِّ شَيْءٍ لَيْسَ فِيهِ رُوحٌ
سعید بن ابو الحسن صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابو عباس! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے اور میں یہ مورتیں بناتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے اس پر فرمایا کہ میں تمھیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا (یہ سن کر) اس شخص کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ افسوس! اگر تم مورتیں بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہ ہو مورتیں بنا سکتے ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1369]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 104 باب بيع التصاوير التي ليس فيها روح وما يكره من ذلك»

حدیث نمبر: 1370
1370 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ، فَرَأَى أَعْلاَهَا مُصَوِّرًا يُصَوِّرُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا حَبَّةً، وَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً
ابوزرعہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں (مروان بن حکم کے گھر میں) گیا تو انہوں نے چھت پر ایک مصور کو دیکھا جو تصویر بنا رہا تھا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے (اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو میری مخلوق کی طرح پیدا کرنے چلا ہے اگر اسے یہی گھمنڈ ہے تو اسے چاہئے کہ ایک دانہ پیدا کرے، ایک چیونٹی پیدا کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1370]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 90 باب نقض الصور»

715. باب كراهة قلادة الوتر في رقبة البعير
715. باب: دانت کا ہار اونٹ کے گلے میں ڈالنے کی ممانعت
حدیث نمبر: 1371
1371 صحيح حديث أَبِي بَشِيرٍ الأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَسُولاً أَنْ لاَ يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلاَدَةٌ إِلاَّ قُطِعَتْ
حضرت ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک قاصد (زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ جس شخص کے اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا یوں فرمایا کہ جو گنڈا (ہار) ہو وہ اسے کاٹ ڈالے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1371]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 139 باب ما قيل في الجرس ونحوه في أعناق الإبل»

716. باب جواز وشم الحيوان غير الآدمي في غير الوجه وندبه في نعم الزكاة والجزية
716. باب: سوائے آدمی کے ہر جانور کو چہرے کے علاوہ داغ دینا درست ہے نیز زکوٰۃ اور جزیہ کے جانور داغنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1372
1372 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا وَلَدَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ، قَالَتْ لِي: يَا أَنَسُ انْظُرْ هذَا الْغُلاَمَ، فَلاَ يُصِيبَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُحَنِّكُهُ فَغَدَوْتُ بِهِ فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ وَعَلَيْهِ خَمِيصَةٌ حُرَيْثِيَّةٌ، وَهُوَ يَسِمُ الظَّهْرَ الَّذِي قَدِمَ عَلَيْهِ فِي الْفَتْحِ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ انس اس بچہ کو دیکھتے رہو، کوئی چیز اس کے پیٹ میں نہ جائے اور جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لاؤ تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جھوٹا اس کے منہ میں ڈالیں۔ چنانچہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک باغ میں تھے اور آپ کے جسم پر قبیلہ بنی حریث کی بنی ہوئی چادر (خمیصہ حریثیہ) تھی اور آپ اس سواری پر نشان لگا رہے تھے جس پر آپ فتح مکہ کے موقع پر سوار تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1372]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 22 باب الخميصة السوداء»

717. باب كراهة القزع
717. باب: قزع کی ممانعت
حدیث نمبر: 1373
1373 صحيح حديث ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَنْهى عَنِ الْقَزَعِ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے تھے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے قزع سے منع فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1373]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 72 باب القزع»

718. باب النهي عن الجلوس في الطرقات وإِعطاء الطريق حقه
718. باب: راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت اور اگر بیٹھا جائے تو ان کا حق ادا کیا جائے
حدیث نمبر: 1374
1374 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله، عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ فَقَالوا: مَا لَنَا بُدٌّ إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا قَالَ: فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلاَّ الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ رضی اللہ عنہ م نے عرض کی کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذا دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1374]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 46 كتاب المظالم: 22 باب أفنية الدور والجلوس فيها»

719. باب حريم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والنامصة والمتنمصة والمتفلجات والمغيرات خلق الله
719. باب: بالوں میں جوڑ لگانا اور لگوانا، گودنا اور گودوانا اور چہرے کی روئیں نکالنا اور نکلوانا اور دانتوں کو کشادہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنا حرام ہے
حدیث نمبر: 1375
1375 صحيح حديث أَسْمَاءَ، قَالَتْ: سَأَلَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ ابْنَتِي أَصَابَتْهَا الْحَصْبَةُ فَامَّرَقَ شَعْرُهَا، وَإِنِّي زَوَّجْتُهَا؛ أَفَأَصِلُ فِيهِ فَقَالَ: لَعَنَ اللهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصولَةَ
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری لڑکی کو چیچک نکلی، اور اس سے اس کے بال جھڑ گئے۔ میں اس کی شادی بھی کر چکی ہوں تو کیا اس کے سر میں مصنوعی بال لگا دوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے لگایا جائے، دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1375]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب اللباس: 85 باب الموصولة»

حدیث نمبر: 1376
1376 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ زَوَّجَتِ ابْنَتَهَا، فَتَمَعَّطَ شَعَرُ رَأْسِهَا فَجَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ؛ فَقَالَتْ: إِنَّ زَوْجَهَا أَمَرَني أَنْ أَصِلَ فِي شَعَرِهَا، فَقَالَ: لاَ، إِنَّهُ قَدْ لُعِنَ الْمُوصِلاَتُ
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی۔ اس کے بعد لڑکی کے سر کے بال بیماری کی وجہ سے اڑ گئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کے شوہر نے اس سے کہا ہے کہ اپنے بالوں کے ساتھ (دوسرے مصنوعی بال) جوڑ لئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ایسا تو ہرگز مت کر کیونکہ (مصنوعی بال سر پر رکھ کر جو جوڑے تو) ایسے بال جوڑنے والیوں پر لعنت کی گئی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1376]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 94 باب لا تطيع المرأة زوجها في معصية»


Previous    1    2    3    4    5    Next