1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الأشربة
کتاب: پینے کی اشیاء کا بیان
687. باب جواز استتباعه غيره إلى دار من يثق برضاه بذلك ويتحققه تحققًا تامًا، واستحباب الاجتماع على الطعام
687. باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہیں ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے اور اکٹھے کھانا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1322
1322 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ، رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا، فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا، فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ، فَذَبَحْتُهَا، وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي وَقَطّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا، ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: لاَ تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِمَنْ مَعَهُ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ؛ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا، وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا، فَحَيَّ هَلاً بِكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ، وَلاَ تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ فَجِئْتُ، وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقْدُمُ النَّاسَ، حَتَّى جِئْتُ امْرأَتِي فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا، فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ ثُمَّ قَالَ: ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي، وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلاَ تُنْزِلُوهَا وَهُمْ أَلْفٌ فَأَقْسِمُ بِاللهِ لقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرفُوا، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَعِطُّ كَمَا هِيَ، وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيخْبَزُ كَمَا هُوَ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا: کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوکے ہیں میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جو تھے گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو چکی میں پیسے۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جو پیس چکی تھیں میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا، چنانچہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ ذبح کر لیا ہے اور ایک صاع جو پیس لئے ہیں جو ہمارے پاس تھے، اس لئے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلند آواز سے فرمایا‘ اے اہل خندق! جابر رضی اللہ عنہ نے تمہارے لئے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو‘ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک میں آنہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں میںنے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کر دیا تھا آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے لعاب دہن مبارک کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب مبارک کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (شکم سیر ہو کر) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہوگئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی‘ جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1322]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 29 باب غزوة الخندق وهي الأحزاب»

حدیث نمبر: 1323
1323 صحيح حديث أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ أَبو طَلْحَة لأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا، أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ قَالَتْ: نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَفَّتِ الْخُبزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَستْهُ تَحْتَ يَدِي وَلاَثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: بِطَعَامٍ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، لَيْسَ عَنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذلِكَ الْخبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلاً
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہواہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا ٗ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے ٗ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابو طلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ٗ آپ نے دریافت فرمایا ٗ کچھ کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ٗ جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے ٗ ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو۔ آنحضرت تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا حتی کہ میں نے ابو طلحہ کے گھر پہنچ کر انہیں خبر دی۔ ابو طلحہ بولے: ام سلیم!حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا ٗ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں (ہم فکر کیوں کریں؟) خیر ابو طلحہ آگے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے (گھر پہنچ کر) آپ نے فرمایا: ام سلیم! تمہارے پاس جو کچھ ہو یہاں لاؤ۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا اور اس طرح سالن ہو گیا۔ آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی، جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا ٗ انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب یہ لوگ باہر گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا، ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1323]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»

688. باب جواز أكل المرق واستحباب أكل اليقطين، وإِيثار أهل المائدة بعضهم بعضًا وإِن كانوا ضيفانا، إِذا لم يكره ذلك صاحب الطعام
688. باب: شوربہ کھانا جائز اور کدو کھانا مستحب ہے اور دستر خوان پر موجود افراد ایک دوسرے پر ایثار کریں بشرطیکہ میزبان اسے معیوب نہ جانے
حدیث نمبر: 1324
1324 صحيح حديث أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خُبْزًا وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ الْقَصْعَةِ قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمَئِذٍ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس دعوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدوکے قتلے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔ اسی دن سے میں بھی برابر کدو کو پسند کرتا ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1324]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 30 باب ذكر الخيّاط»

689. باب أكل القثاء بالرطب
689. باب: کھجور کے ساتھ ککڑی کھانا
حدیث نمبر: 1325
1325 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الرُّطَبَ بالْقِثَّاءِ
حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تازہ کھجور ککڑی کے ساتھ کھاتے دیکھا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1325]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 39 باب الرطب بالقثاء»

690. باب نهي الآكل مع جماعة عن قران تمرتين ونحوهما في لقمة، إِلا بإِذن أصحابه
690. باب: جب لوگوں کے ساتھ کھانا کھایا جا رہا ہو تو ان کی اجازت کے بغیر دو دو لقمے یا دو دو کھجوریں ایک ہی بار نہ کھائے
حدیث نمبر: 1326
1326 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ عَنْ جَبَلَةَ، كُنَّا بِالْمَدِينَةِ فِي بَعْضِ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَأَصَابَنَا سَنَةٌ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا التَّمْرَ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمُرُّ بِنَا، فَيقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَهى عَنِ الإِقْرَانِ، إِلاَّ أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ أَخَاهُ
جبلہ نے بیان کیا کہ ہم بعض اہلِ عراق کے ساتھ مدینے میں مقیم تھے۔ وہاں ہمیں قحط میں مبتلا ہونا پڑا۔ عبداللہ بن زبیر کھانے کے لیے ہمارے پاس کھجور بھجوایا کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماجب ہماری طرف سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے، مگر یہ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اجازت لے لے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1326]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 46 كتاب المظالم: 14 باب إذا أذن إنسان لآخر شيئًا جاز»

691. باب فضل تمر المدينة
691. باب: مدینہ کی کھجور کی فضیلت
حدیث نمبر: 1327
1327 صحيح حديث سَعْدٍ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ تَصَبَّحَ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً لَمْ يَضُرُّهُ، ذَلِكَ الْيَوْمَ، سُمٌّ وَلاَ سِحْرٌ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں اس دن اسے نہ زہر نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ جادو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1327]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 52 باب الدواء بالعجوة للسحر»

692. باب فضل الكمأة ومداواة العين بها
692. باب: کھنبی کی فضیلت اور آنکھ کا علاج
حدیث نمبر: 1328
1328 صحيح حديث سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کماۃ (یعنی کھنبی) بھی من کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1328]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 2 سورة البقرة: 4 باب قوله تعالى وظللنا عليكم الغمام وأنزلنا عليكم المن والسلوى»

693. باب فضيلة الأسود من الكباث
693. باب: باب راک کے سیاہ پھل کی فضیلت
حدیث نمبر: 1329
1329 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه، قَالَ: كنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَجْنِي الْكَبَاثَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ مِنْهُ، فَإِنَّهُ أَطْيَبُهُ قَالُوا: أَكُنْتَ تَرْعَى الْغَنَمَ قَالَ: وَهَلْ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ وَقَدْ رَعَاهَا
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) پیلو کے پھل توڑنے لگے۔ آپ نے فرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو، کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1329]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 29 باب يعكفون على أصنام لهم»

694. باب إِكرام الضيف وفضل إِيثاره
694. باب: مہمان کی خاطر داری اور اس کے لیے ایثار کا ثواب
حدیث نمبر: 1330
1330 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلاَّ الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هذَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ: أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلاَّ قُوتُ صِبْيَانِي فَقَالَ: هَيِّء طَعَامَكِ، وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا؛ ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا، فَأَطْفَأَتْهُ، فَجَعَلاَ يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلاَنِ فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِكَ اللهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فِعَالِكُمَا فَأَنْزَلَ اللهُ (وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأَولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب (خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا (تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں) ازواج نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اورکوئی چیز بھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہے اسے نکال دواور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلا دو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو(بھوکا) سلا دیا۔ پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں لیکن ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزار دی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا (یہ فرمایا کہ اسے) پسند کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر (دوسرے غریب صحابہ کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا، سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1330]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 10 باب ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة»

حدیث نمبر: 1331
1331 صحيح حديث عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثِينَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ: أَمْ هِبَةً قَالَ: لاَ، بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، وَايْمُ اللهِ مَا فِي الثَّلاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلاَّ قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ فَأَكَلُوا أَجْمَعُونَ، وَشَبِعْنَا فَفَضَلَتِ الْقَصْعَتَانِ فَحَمَلْنَاهُ عَلَى الْبَعِيرِ أو كَمَا قَالَ
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کسی کے پاس کھانے کی بھی کوئی چیز ہے؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا آٹا تھا۔ وہ آٹا گوندھا گیاپھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان بال بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ بیچنے کے لیے ہیں یا کسی کا عطیہ ہے؟ یا آپ نے عطیہ کے بجائے ہبہ کہا۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی۔ پھر وہ ذبح کی گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا۔ قسم خدا کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا جو موجود تھے انھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا، پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا گیا اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے۔ (راوی کہتا ہے) یا جس طرح حضرت نے فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1331]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 28 باب قبول الهدية من المشركين»


Previous    1    2    3    4    5    Next