ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا میں بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ حجاج نے مزاج پوچھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ برچھا کس نے مارا؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اس شخص نے مارا جس نے اس دن ہتھیار ساتھ لے جانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا۔ آپ کی مراد حجاج ہی سے تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 967]
اور عبداللہ بن بسر صحابی نے (ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: Q968]
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر (خطبہ کے بعد) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہو گا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعاً نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لو یا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہو گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 968]
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ(اس آیت)”اور اللہ تعالیٰ کا ذکر معلوم دنوں میں کرو“ میں ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور «اأيام المعدودات» سے مراد ایام تشریق ہیں۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نِکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر (تکبیرات) سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر رحمہ اللہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: Q969]
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے سلیمان کے واسطے سے بیان کیا، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان (دس) دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 969]
اور عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے ڈیرے کے اندر تکبیر کہتے تو مسجد میں موجود لوگ اسے سنتے اور وہ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار میں موجود لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور سارا منیٰ تکبیر سے گونج اٹھتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: Q970]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابی بکر ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اسے کس طرح کہتے تھے۔ اس وقت ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر۔ اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 970]
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے عاصم بن سلیمان سے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے، ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے فرمایا کہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 971]
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے برچھی آگے آگے اٹھائی جاتی اور وہ عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دی جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی آڑ میں نماز پڑھتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 972]
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا (ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے لے جایا جاتا تھا پھر یہ عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 973]