حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اورعرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو ثواب میں جہاد کے برابر ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا کوئی عمل میں نہیں پاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اتنا کر سکتے ہو کہ جب مجاہد (جہاد کے لئے) نکلے تو تم اپنی مسجد میں آ کر برابر نماز پڑھنی شروع کر دو اور (نماز پڑھتے رہو اور درمیان میں) کوئی سستی اور کاہلی تمہیں محسوس نہ ہو، اسی طرح روزے رکھنے لگو اور (کوئی دن) بغیر روزے کے نہ گزرے۔ ان صاحب نے عرض کیا، بھلا ایسا کون کر سکتا ہے؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1233]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 1 باب فضل الجهاد والسير»
644. باب فضل الغدوة والروحة في سبيل الله
644. باب: اللہ کی راہ میں صبح یا شام گذارنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 1234
1234 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللهِ أَوْ رَوْحَة خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح یا ایک شام دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بہتر ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1234]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 5 باب الغدوة والروحة في سبيل الله»
حدیث نمبر: 1235
1235 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الرَّوْحَةُ وَالْغَدْوَةُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَفْضَلُ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح و شام دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بڑھ کر ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1235]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 5 باب الغدوة والروحة في سبيل الله»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام چلنا ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1236]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 5 باب الغدوة والروحة في سبيل الله»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! کون شخص سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اور اس کے بعد کون؟ فرمایا مومن جو پہاڑ کی کسی گھاٹی میں رہنا اختیار کرے، اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اور لوگوں کو چھوڑ کر اپنی برائی سے ان کو محفوظ رکھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1237]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 2 باب أفضل الناس مؤمن يجاهد بنفسه وماله في سبيل الله»
646. باب بيان الرجلين يقتل أحدهما الآخر يدخلان الجنة
646. باب: دو ایسے آدمیوں کا ذکر کہ ایک آدمی دوسرے کا قاتل ہو گا اور دونوں جنتی ہوں گے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا اور پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔ پہلا وہ جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہ شہید ہو گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی (یعنی قاتل مسلمان ہو گیا) اور وہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ (اس طرح دونوں قاتل و مقتول بالآخر جنت میں داخل ہو گئے۔)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1238]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 28 باب الكافر يقتل المسلم ثم يسلم فيسدد بعد ويقتل»
647. باب فضل إِعانة الغازي في سبيل الله بمركوب وغيره، وخلافته في أهله بخير
647. باب: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مدد سواری وغیرہ کے ساتھ کرنے کی فضیلت اور اس کے گھر والوں کی دیکھ بھال نیکی ہے
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے والے کو سازوسامان دیا تو وہ (گویا) خود غزوہ میں شریک ہوا اور جس نے خیر خواہانہ طریقہ پر غازی کے گھر بار کی نگرانی کی تو وہ (گویا) خود غزوہ میں شریک ہوا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1239]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 38 باب فضل من جهز غازيًا أو خلفه بخير»
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب آیت (لا یستوی القاعدون من المومنین) نازل ہوئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (جو کاتب وحی تھے) کو بلایا، آپ ایک چوڑی ہڈی ساتھ لے کر حاضر ہوئے اور اس آیت کو لکھا اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے جب اپنے نابینا ہونے کی شکایت کی تو آیت یوں نازل ہوئی (لا یستوی القاعدون من المومنین غیر اولی الضرر) اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ س میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔ (النساء: ۹۵)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1240]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير؛ 31 باب قول الله تعالى (لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولى الضرر»
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا‘ یا رسول اللہ! اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1241]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 17 باب غزوة أُحد»
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ستر آدمی (جو قاری تھے) بنو عامر کے یہاں بھیجے۔ جب یہ سب حضرات (بئر معونہ) پر پہنچے تو میرے ماموں حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ نے کہا میں (بنو عامر کے یہاں) آگے جاتا ہوں اگر مجھے انہوں نے اس بات کا امن دے دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان تک پہنچاؤں تو بہتر ورنہ تم لوگ میرے قریب تو ہو ہی۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں گئے اور انہوں نے امن بھی دے دیا۔ ابھی وہ قبیلہ کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنا ہی رہے تھے کہ قبیلہ والوں نے اپنے ایک آدمی (عامر بن طفیل) کو اشارہ کیا اور اس نے آپ رضی اللہ عنہ کے برچھا پیوست کر دیا جو آرپار ہو گیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا اللہ اکبر میں کامیاب ہو گیا کعبہ کے رب کی قسم! اس کے بعد قبیلہ والے حرام رضی اللہ عنہ کے دوسرے ساتھیوں کی طرف (جو ستر کی تعدا میں تھے) بڑھے اور سب کو قتل کر دیا۔ البتہ ایک صاحب جو لنگڑے تھے، پہاڑ پر چڑھ گئے۔ ہمام (راوی حدیث) نے بیان کیا میں سمجھتا ہوں کہ ایک صاحب اور ان کے ساتھی (پہاڑ پر چڑھے تھے) اس کے بعد جبرئیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے جا ملے ہیں، پس اللہ خود بھی ان سے خوش ہے اور انہیں بھی خوش کر دیا ہے۔ اس کے بعدہم (قرآن کی دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی) پڑھتے تھے (ترجمہ) ہماری قوم کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں، پس ہمارا رب خود بھی خوش ہے اور ہمیں بھی خوش کر دیا ہے۔ اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہو گئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن تک صبح کی نماز میں قبیلہ رعل، ذکوان، بنی لحیان اور بنی عصیہ کے لئے بددعا کی تھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1242]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 9 باب من ينكب في سبيل الله»