حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر فرمایا تھا کہ تم لوگ تمام زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ ہماری تعداد اس موقع پر چودہ سو تھی۔ اگر آج میری آنکھوں میں بینائی ہوتی تو میں اس درخت کا مقام بتاتا۔ (جہاں بیعت رضوان ہوئی تھی)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1213]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 35 باب غزوة الحديبية»
حدیث نمبر: 1214
1214 صحيح حديث الْمُسَيَّبِ بْنِ حَزْنٍ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ الشَّجَرَة، ثُمَّ أَتَيْتهَا بَعْدُ فَلَمْ أَعْرِفْهَا
حضرت مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے وہ درخت دیکھا تھا، لیکن پھر بعد میں جب آیا تو میں اسے نہیں پہچان سکا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1214]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 35 باب غزوة الحديبية»
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ موت پر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1215]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 35 باب غزوة الحديبية»
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حرہ کی لڑائی کے زمانہ میں ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے (یزید کے خلاف) موت پر بیعت لے رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں موت پر کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1216]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 110 باب البيعة في الحرب أن لا يفروا»
634. باب تحريم رجوع المهاجر إِلى استيطان وطنه
634. باب: جو شخص اپنے وطن سے ہجرت کر جائے پھر اس کو واپس آ کر وطن بنانا حرام ہے
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ حجاج کے یہاں گئے تو اس نے کہا کہ اے ابن الاکوع! تم گاؤں میں رہنے لگے ہو کیا الٹے پاؤں پھر گئے ہو؟ کہا کہ نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1217]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 92 كتاب الفتن: 14 باب التعرب في الفتنة»
635. باب المبايعة بعد فتح مكة على الإسلام والجهاد والخير وبيان معنى لا هجرة بعد الفتح
635. باب: فتح مکہ کے بعد اسلام یا جہاد یا نیکی پر بیعت ہونا، اور اس کے بعد ہجرت نہ ہونے کے معنی
ابو عثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں (اپنے بھائی ابو معبد رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کے لئے لے گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہو چکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابو عثمان نے کہا کہ پھر میں نے ابو معبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1218]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 53 باب وقال الليث»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا، اب ہجرت (مکہ سے مدینہ کے لئے) باقی نہیں رہی، البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اس لئے جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو فوراً نکل جاؤ۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1219]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 194 باب لا هجرة بعد الفتح»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق پوچھا (یعنی یہ کہ آپ اجاز ت دیں تو میں مدینہ میں ہجرت کر آؤں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس! اس کی تو شان بڑی ہے کیا تیرے پاس زکاۃ دینے کے لیے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکاۃ دیا کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا ہے، سمندروں کے اس پار (جس ملک میں تو رہے وہاں) عمل کرتا رہ، اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1220]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 24 كتاب الزكاة: 36 باب زكاة الإبل»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مومن عورتیں جب ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آزماتے تھے، بوجہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے کہ ”اے وہ لوگو! جو ایمان لے آئے ہو، جب مومن عورتیں تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو انہیں آزماؤ۔“ آخر آیت تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ان (ہجرت کرنے والی) مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتی تو وہ آزمائش میں پوری سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ جب وہ عورتیں اس کا اپنی زبان سے اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ ہرگز نہیں! واللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے (بیعت لیتے وقت) کسی عورت کا ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صرف زبان سے (بیعت لیتے تھے) واللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف انہیں چیزوں کا عہد لیا جن کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ یہ آپ صرف زبان سے کہتے کہ میں نے تم سے بیعت لے لی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1221]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 20 باب إِذا أسلمت المشركة أو النصرانية تحت الذمى أو الحربي»
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تو آپ ہم سے فرماتے کہ جتنی تمہیں طاقت ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1222]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 43 باب كيف يبايع الإمام الناس»