سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ محرم کو کس طرح کا کپڑا پہننا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ کرتہ پہنے نہ عمامہ باندھے نہ پاجامہ پہنے نہ باران کوٹ نہ موزے لیکن اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے اس وقت پہن سکتا ہے جب ٹخنوں کے نیچے سے ان کو کاٹ لیا ہو (اور احرام میں) کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہوا ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 731]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 21 باب ما لا يلبس المحرم من الثياب»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے سنا تھا کہ جس کے پاس احرام میں جوتی نہ ہوں وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ پاجامہ پہن لے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 732]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 28 كتاب جزاء الصيد: 15 باب لبس الخفين للمحرم إذا لم يجد النعلين»
سیّدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کبھی آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دکھائیے جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہوں (یعلی نے) بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھیرے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرہ کا احرام اس طرح باندھا کہ اس کے کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گئے پھر آپ پر وحی نازل ہوئی تو سیّدنا عمر نے یعلی رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا یعلی آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ تشریف رکھتے تھے انہوں نے کپڑے کے اندر اپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ روئے مبارک سرخ ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں پھر یہ حالت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کے متعلق پوچھا تھا شخص مذکور حاضر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جو خوشبو لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو لے اور اپنا جبہ اتار دے عمرہ میں بھی اسی طرح کرجس طرح حج میں کرتے ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 733]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 17 باب غسل الخلوق ثلاث مرات من الثيات»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا شام والوں کے لئے جحفہ نجد والوں کے لئے قرن منازل اور یمن والوں کے لئے یلملم یہ میقات ان ملک والوں کے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو ان ملکوں سے گذر کر حرم میں داخل ہوں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ان کے گھر ہیں یہاں تک کہ مکہ کے لوگ احرام مکہ ہی سے باندھیں۔ (جو حضرات عمرہ کے لئے تنعیم جانا ضروری گردانتے ہیں یہ حدیث ان پر حجت ہے بشرطیکہ بنظر تحقیق مطالعہ فرمائیں)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 734]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 9 باب مهل أهل الشام»
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامدینہ کے لوگ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں شام کے لوگ جحفہ سے اور نجد کے لوگ قرن منازل سے سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 735]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 8 باب ميقات أهل المدينة ولا يهلوا قبل ذي الحليفة»
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں حاضر ہوں تمام حمد تیرے ہی لئے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں ملک تیرا ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 736]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 26 باب التلبية»
366. باب أمر أهل المدينة بالإحرام من عند مسجد ذي الحليفة
سیّدنا ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذوالحلیفہ کے قریب ہی پہنچ کر احرام باندھا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 737]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 20 باب الإهلال عند مسجد ذي الحليفة»
367. باب الإهلال من حيث تنبعث الراحلة
367. باب: جہاں سے سواری اٹھے وہیں سے لبیک پکارنے کا بیان
عبیداللہ بن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے کہا، اے ابو عبدالرحمن! میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جنہیں آپ کے ساتھیوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کہنے لگے، اے ابن جریج! وہ کیا ہیں؟ ابن جریج نے کہا: میں نے طواف کے وقت آپ کو دیکھا کہ دو یمانی رکنوں کے سوا کسی اور رکن کو آپ نہیں چھوتے ہو۔ (دوسرے) میں نے آپ کو سبتی جوتے پہنے ہوئے دیکھا اور (تیسرے) میں نے دیکھا کہ آپ زرد رنگ استعمال کرتے ہو اور (چوتھی بات) میں نے یہ دیکھی کہ جب آپ مکہ میں تھے، لوگ (ذی الحجہ کا) چاند دیکھ کر لبیک پکارنے لگتے ہیں۔ (اور) حج کا احرام باندھ لیتے ہیں اور آپ آٹھویں تاریخ تک احرام باندھ لیتے ہیں۔ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے جواب دیا کہ (دوسرے) ارکان کو تو میں یوں نہیں چھوتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمانی رکنوں کے علاوہ کسی اور رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا اور رہے سبتی جوتے، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا کہ جن کے چمڑے پر بال نہیں تھے اور آپ انہیں کو پہنے پہنے وضو فرمایا کرتے تھے، تو میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں اور زرد رنگ کی بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔ تو میں بھی اسی رنگ سے رنگنا پسند کرتا ہوں اور احرام باندھنے کا معاملہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک احرام باندھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب تک آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر نہ چل پڑتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 738]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 30 باب غَسْل الرجلين في النعلين، ولا يمسح على النعلين»
368. باب الطيب للمحرم عند الإحرام
368. باب: محرم کے لیے احرام سے پہلے خوشبو لگانا جائز ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تو میں آپ کے احرام کے لئے اور اسی طرح بیت اللہ کے طواف زیارت سے پہلے حلال ہونے کے لئے خوشبو لگایا کرتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 739]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 18 باب الطيب عند الإحرام»
حدیث نمبر: 740
740 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفْرِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گویا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں حالانکہ آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 740]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 5 كتاب الغسل: 14 باب من تطيب ثم اغتسل وبقي أثر الطيب»