سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ کے لئے غصہ ہوتے تھے؟ آپ نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 125]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 40 باب قصة أبي طالب»
حدیث نمبر: 126
126 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ، فَقالَ: لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغهُ
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ کی مجلس میں آپ کے چچا کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آ جائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 126]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 40 باب قصة أبي طالب»
69. باب أهون أهل النار عذابًا
69. باب: جہنم والوں میں سب سے ہلکے عذاب والے کا بیان
سیّدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن عذاب کے اعتبار سے سب سے کم وہ شخص ہو گا جس کے دونوں قدموں کے نیچے آگ کا انگارہ رکھا جائے گا اور اس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا (صحیح مسلم میں آگ کی دو جوتیاں پہنانے کا ذکر ہے اس سے ابو طالب مراد ہیں)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 127]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»
70. باب موالاة المؤمنين ومقاطعة غيرهم والبراءة منهم
70. باب: مومن سے دوستی رکھنے اور غیر مومن سے دوستی قطع کرنے اور ان سے جدا رہنے کا بیان
سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم رضی اللہ عنہ سے علی الاعلان سنا کہ فلاں کی اولاد میرے عزیز نہیں ہیں۔ (گو ان سے نسبی رشتہ ہے) میرا ولی تو اللہ ہے اور میرے عزیز تو وہ ہیں جو مسلمانوں میں نیک اور پرہیز گار ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ بھی نہ ہو) البتہ ان سے میرا رشتہ ناطہ ہے اگر وہ تر رکھیں گے تو میں بھی رکھوں گا یعنی وہ ناطہ جوڑیں گے تو میں بھی جوڑوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 128]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 14 باب يبل الرحم ببلاها»
71. باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب
71. باب: مسلمانوں کے ایک گروہ کا بغیر حساب عذاب کے جنت میں داخل ہونے کا بیان
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی ایک جماعت جنت میں داخل ہو گی جس کی تعداد ستر ہزار ہو گی ان کے چہرے اس طرح روشن ہوں گے جیسے چودھویں رات کا چاند روشن ہوتا ہے۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر سیّدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اپنی دھاری دار کملی جو ان کے جسم پر تھی اٹھاتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ انہیں بھی ان میں سے کر دے اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 129]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 50 باب يدخل الجنة سبعون ألفًا بغير حساب»
سیّدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار یا سات لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے راوی کو شک ہوا کہ سہل سے کونسی تعداد بیان ہوئی تھی (وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ) وہ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ہوں گے۔ ان میں کا اگلا ابھی اندر داخل نہ ہونے پائے گا کہ جب تک آخری بھی داخل نہ ہو جائے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمارے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (خواب میں) مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں بعض نبی گذرتے اور ان کے ساتھ (ان کی اتباع کرنے والا) صرف ایک ہوتا بعض گذرتے اور ان کے ساتھ دو ہوتے بعض کے ساتھ پوری جماعت ہوتی اور بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوتا پھر میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جس سے آسمان کا کنارہ ڈھک گیا تھا میں سمجھا کہ یہ میری امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کے لوگ ہیں پھر مجھ سے کہا کہ دیکھو ادھر دیکھو میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق پر محیط تھیں کہا گیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بے حساب جنت میں داخل کیے جائیں گے پھر صحابہ مختلف جگہوں میں اٹھ کر چلے گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے صحابہ کرام نے آپس میں اس کے متعلق مذاکرہ کیا اور کہا کہ ہماری پیدائش تو شرک میں ہوئی تھی البتہ بعد میں ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے لیکن یہ ستر ہزار ہمارے بیٹے ہوں گے جو پیدائش ہی میں مسلمان ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بد فالی نہیں کرتے نہ منتر سے جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا کہ ہاں ایک دوسرے صاحب (سیّدناسعد بن عبادہ) نے کھڑے ہو کر عرض کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے (کہ تم سے پہلے عکاشہ کے لیے جو ہونا تھا وہ ہو چکا)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 42 باب من لم يَرْقِ»
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو ہم نے کہا جی ہاں پھر آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ) اہل جنت کا آدھا حصہ ہو گے اور ایسا اس لئے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان (تعداد میں) اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ رنگ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 45 باب كيف الحشر»
72. باب قوله يقول الله لآدم: أخرج بعث النار من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين
72. باب: اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے ارشاد فرمائے گا ہر ھزار آدمیوں میں سے نو سو ننانوے آدمی جہنم کے لیے نکال لو
سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم حضرت آدم کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو آدم علیہ السلام پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے یہی وہ وقت ہو گا جب بچے غم سے بوڑھے ہو جائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھو گے حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔ صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہو گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو ایک ہزار یا جوج و ماجوج کی قوم سے ہوں گے اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہو گا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو گے راوی نے بیان کیا کہ ہم نے اس پر اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تکبیر کہی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم لوگ ہو گے تمہاری مثال دوسری امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کسی سیاہ بیل کے جسم پر سفید بالوں کی (معمولی تعداد) ہوتی ہے۔ یا وہ سفید داغ جو گدھے کے آگے کے پاؤں پر ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 133]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: باب قوله عز وجل إن زلزلة الساعة شيء عظيم»