ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
جناب عبيد بن عمیر سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ آپ حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے کے لئے لوگوں سے ٹکراتے اور ان کے ہجوم میں گھس جاتے ہیں۔ (اتنی شدید کوشش کرنے کی وجہ کیا ہے؟) انہوں نے جواب دیا، اگر میں یہ کام کرتا ہوں تو (اس کی وجہ یہ ہے کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ان دونوں کو چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں“ اور میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتا ہے، اُس کے ہر قدم اُٹھانے اور رکھنے پر اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف کردیتا ہے، اور اس کا ایک درجہ بلند لکھ دیا جاتا ہے۔“ اور میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”جس شخص نے پورے سات چکّر لگائے تو گویا یہ ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کی طرح ہے۔ جناب یوسف کی روایت میں ہے کہ ”اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2753]
جناب جعفر بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے اُن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں پوچھا۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا کہ جب آپ طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم پر آئے اور اس کے پیچھے دو رکعات ادا کیں۔ اور یہ آیت تلاوت کی «وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» [ سورة البقرة: 125 ]”اور تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ“ آپ نے ان دو رکعت میں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» اور «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» سورتوں کو پڑھا۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2754]
آپ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ شریف کے دروازے کے درمیان کرکے نماز پڑھی۔آپ مقام ابراہیم کے سامنے یا اس کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے نہیں ہوئے [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2755]
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق تفصیلی روایت مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ نے تین چکّروں میں رمل کیا اور چار چکّروں میں عام چال چلی۔ پھر آپ مقام ابراہیم پر آئے، پھر یہ آیت پڑھی «وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» [ سورة البقرة: 125 ]”اور تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز پڑھتے وقت) مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ شریف کے دروازے کے درمیان کردیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو بیت اللہ شریف کے پاس آئے اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔ پھر بقیہ حدیث بیان کیا۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2755]
سیدنا جابر اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو رکعات پڑھ لیں تو دوبارہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا۔ “[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2756]
اور صفا اور مروہ پہاڑِ پر اس قدر چڑھنا کہ بیت اللہ دکھائی دینے لگے۔ مروہ سے پہلے صفا پہاڑی پر چڑھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) صفا پہاڑی کا ذکر پہلے کیا ہے اور مروہ کا بعد میں تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حُکم کی وضاحت کرنے والے نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا ہے کہ (سعی کی ابتداء) صفا سے کی جائے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہلے تذکرہ کیا ہے [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2757]
جناب جعفر کے والد گرامی جناب محمد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی کیفیت دریافت کی۔ پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس حجر اسود کے پاس گئے اس کا استلام کیا اور صفا پہاڑی کی طرف تشریف لے گئے۔ اور فرمایا: ”میں اسی پہاڑی سے (سعی کی) ابتداء کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے ابتداء کی ہے۔ اور یہ آیت پڑھی «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ» [ سورة البقرة: 108 ]”بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ پھر آپ صفا پراتنا بلند ہوئے کہ بیت اللہ شریف نظر آ گیا، آپ نے بیت اللہ کو دیکھ کر تین بار «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھا اور یہ دعا پڑھی «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَغَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا، اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں پر اکیلا ہی غالب آ گیا۔“ پھر آپ نے تین بار یہی دعا پڑھی (اور دیگر دعائیں مانگیں) پھر آپ نیچے اُتر آئے حتّیٰ کہ جب آپ کے قدم مبارک وادی کے در میان پہنچے تو آپ نے دوڑ لگائی۔ حتّیٰ کہ جب (مروہ کی) چڑھائی چڑھنے لگے تو عام رفتار سے چلے گئے۔ پھر آپ مروه کے پاس پہنچے اور اس پر چڑھے حتّیٰ کہ جب بیت اللہ پر نظر پڑی تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہ کر وہی دعائیں مانگیں جو صفا پہاڑی پر مانگی تھیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2757]
جناب عبد اللہ بن رباح بیان کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں کچھ وفد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہوئے، میں اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اُن کے ساتھ تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکّہ کے بارے میں ایک طویل حدیث بیان کی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے انصار کی جماعت، کیا میں تمہیں تمہاری ہی داستانوں میں سے ایک داستان نہ بتاؤں؟ پھر اُنہوں نے فتح مکّہ کا حال بیان کیا۔ اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوگئے۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کی طرف آئے اور اُس کا استلام کیا اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا، آپ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی آپ نے اُس کا جُھکا ہوا کنارہ پکڑا ہوا تھا۔ آپ اپنے طواف کے دوران میں ہی ایک بت کے پاس آئے جس کی مشرکین پوجا کرتے تھے۔ وہ بیت اللہ کے پہلو میں تھا آپ نے کمان اُس کی آنکھوں میں مارنی شروع کی اور فرمایا: ”حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔“ پھر آپ صفا پہاڑی کی طرف آئے اور اتنا اوپر چڑھے کہ جہاں سے بیت الله نظر آنے لگا تو آپ نے ہاتھ اُٹھائے اور الله کا ذکر شروع کردیا، جو الله تعالیٰ نے چاہا آپ نے ذکر کیا اور اُس سے دعائیں مانگیں۔ جبکہ انصاری صحابہ کرام آپ سے نیچے تھے پھر بقیہ حدیث بیان کی۔ جناب ربیع بن سلیمان کی سند سے یہ الفاظ مروی ہیں ”تو آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور جو اللہ کو منظور تھا اس کے مطابق الله تعالیٰ سے دعائیں کیں۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2758]