جناب عاصم بن ضمرہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوموسیٰ کی طرح روایت بیان کرتے ہیں، امام سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ حُکم مکّہ مکرّمہ کے لئے ہے یا دیگر شہروں کے لئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ میں نے محمد بن یحییٰ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہب بن اجدع کے مجہول اور غیر معروف ہونے کی حالت ختم ہو چکی ہے کیونکہ ان سے امام شعبی اور ہلال بن یساف نے بھی روایت بیان کی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1286]
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ ہر دو اذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان (نفل) نماز ہے۔“ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ”جو پڑھنا چاہے، (وہ پڑھ لے)“ یہ ابوکریب اور احمد بن عبدہ کی حدیث ہے۔ ابوکریب نے یہ الفاظ زیادہ بیان کئے ہیں کہ لہٰذا حضرت عبداللہ بن بریدہ نماز مغرب سے پہلے دور رکعت پڑھتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1287]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب موذن اذان دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جلدی جلدی ستونوں کو سُترہ بنا کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے حتیٰ کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور وہ اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھ رہے ہوتے۔ اور اذان اور اقامت کے درمیان کچھ (زیادہ) وقفہ نہیں ہوتا تھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا مطلب ہے کہ زیادہ طویل وقفہ نہیں ہوتا تھا۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1288]
سیدنا عبداللہ بن مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھو“ پھر فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعات ادا کرو“ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ”جو پڑھنا چاہیے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں لوگ اسے لازمی نہ سمجھ لیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ مباح امر کے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ مباح امر سے نہ ہوتے تو کم از کم سنّت ہوتے، اگرچہ فرض نہ بھی ہوتے، لیکن یہ امر اباحت و جواز کے لئے ہے۔ اور میں اپنی کتابوں کے کئی مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ مباح امر کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے منع فرمائیں۔ پھر اسی ممنوع کام کو کرنے کا حُکم دیں تو یہ حُکم مباح ہو گا - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا، اس معنی اور مفہوم پر جسے میں بیان کر چکا ہوں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد نفل نماز پڑھنے کا حُکم دیا تو حُکم اباحت اور جواز کے لئے ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا (حاجی کو) احرام کی پابندیوں سے فارغ ہونے کے بعد شکار کرنے کا حُکم دینا، مباح حُکم ہے کیونکہ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا ممنوع تھا - اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے «غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» [ سورۃ المائدہ: 1 ]”جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ جانو“ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کی وجہ سے «وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا» [ سورۃ المائدہ: 96]”اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تمہارے لئے خشکی کا شکار حرام کیا گیا ہے۔“ اور اس ارشاد باری تعالیٰ کی وجہ سے «لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» [ سورۃ المائدہ: 95 ]”تم حالت احرام میں شکار کو قتل نہ کرو -“ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے احرام کھولنے پر خشکی کا شکار کرنے کا حُکم دیا تو یہ حُکم اباحت و جواز کے لئے ہے - (فرض یا واجب نہیں) میں نے یہ قسم کتاب معانی القرآن میں بیان کی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1289]