سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر رکھتے اور اپنی سبابہ انگلی سے اشارہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 718]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کو اپنے ہاتھ کے ساتھ کنکریاں کو ہٹاتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ نماز پڑھ رہا تھا پھر وہ نماز سے فارغ ہوا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اُس سے کہا کہ جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو کنکریوں کو مت چھیڑا کرو، کیونکہ یہ شیطانی حرکت ہے، لیکن تم اسی طرح کیا کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی ران پر رکھا اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کے ساتھ قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور نظر بھی اُس طرف رکھی یا اُس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 719]
اس شخص کے گمان کے بر خلاف جو کہتا ہے کہ فرض نماز میں غیر قرآنی دعا مانگنا جائز نہیں ہے [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: Q720]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خبردار، بلاشبہ معلوم نہیں تھا کہ ہم دو رکعتوں ( کے تشہد) میں کیا پڑھیں سوائے اس کے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تسببح و تکبیر اور حمد و ثناء بیان کرتے تھے۔ اور بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خیر و بھلائی کے دروازے کھولنے والی اور جامع دعائیں سکھائی ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ہر دو رکعتوں (کے بعد تشہد) میں بیٹھو تو یہ کلمات پڑھو «التَّحِيَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ّٰاللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ َّاللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا َّاللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» ”تمام قولی اور پاکیزہ جسمانی عبادات اللہ کے لئے ہیں، اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اُس کی برکتیں آپ پر نازل ہوں، ہم پر بھی اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق بندگی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔“”پھر تم میں سے کوئی شخص اپنی پسندیدہ دعا چن لے اور اس کے ساتھ دعا مانگ لے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 720]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص تشہد پڑھ لے تو اُسے چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ وہ اس طرح دعا «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ» ”اے اللہ میں جہنّم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے اور زندگی و موت کے فتنے کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 721]
حضرت سیدنا ابن طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ تشہد کے بعد چند کلمات پڑھا کرتے تھے اور انہیں بڑی اہمیت دیتے تھے، میں نے پوچھا کہ دونوں تشہدوں میں پڑھتے تھے؟ اُنہوں نے کہا کہ (نہیں) بلکہ صرف آخری دو رکعتوں میں تشہد پڑھنے کے بعد پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ وہ کلمات کون سے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ «أَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ» ”میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور میں جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اور میں مسیح دجال کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں، اور میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، اور میں زندگی و موت کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔“ فرماتے ہیں کہ وہ ان کلمات کو بڑی اہمیت دیتے تھے (اور نہایت اہتمام کے ساتھ پڑھتے تھے) جناب ابن جریح کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 722]
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشہد اور سلام کے درمیان آخری دعاؤں میں سے ایک یہ ہے «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ» ”اے اللہ میرے اگلے اور پچھلے گناہ، پوشیدہ اور اعلانیہ گناہ، اور جو میں نے (اپنی جان پر) ظلم و زیادتی کی اور وہ خطائیں جنہیں تُو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، معاف فرما دے، تُو ہی آگے بڑھانے والا ہے اور تُو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 723]
سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنی نماز مکمّل کرلی تھی اور وہ تشہد میں ان کلمات کے ساتھ دعا مانگ رہا تھا، «اللّهُـمَّ إِنِّـي أَسْأَلُـكَ يا اللهُ بِأَنَّـكَ الواحِـدُ الأَحَـد الصَّـمَدُ الَّـذي لَـمْ يَلِـدْ وَلَمْ يولَدْ، وَلَمْ يَكـنْ لَهُ كُـفُواً أَحَـد، أَنْ تَغْـفِرْ لي ذُنـوبي إِنَّـكَ أَنْـتَ الغَفـورُ الرَّحِّـيم» ۔ ”اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اُس اللہ کے واسطے سے جو اکیلا ہے، بے نیاز و بے پروا ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کوئی اُس کا بیٹا اور نہ ہی اُس کو کوئی ہم پلہ و ہمسر ہے، کہ تُو میرے گناہ معاف فرما دے، بیشک تُو نہایت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔“(یہ دعا سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”بیشک اسے معاف کر دیا گیا، بیشک اسے بخش دیا گیا۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 724]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پوچھا: ”تم نماز میں کیا پڑھتے ہو؟“ اُس نے عرض کی کہ میں تشہد پڑھتا ہوں، پھر یہ دعا مانگتا ہوں، «اللّهُـمَّ إِنِّـي أَسْأَلُـكَ الجَـنَّةَ وأََعوذُ بِـكَ مِـنَ الـنّار» ”اے اللہ میں تجھ سے جنّت کا سوال کرتا ہوں اور جہنّم کی آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“(پھر اُس آدمی نے کہا) ﷲ کی قسم، مجھے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اور نہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی طرح گُنگُنانا آتا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح جامع دعائیں نہیں آتیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بھی انہیں دو چیزوں کے ارد گرد گنگناتے ہیں (یعنی ہم بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دو دعائیں مانگتے ہیں) امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دندنہ سے مراد وہی کلام سے جو سمجھی نہ جا سکے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 725]
حضرت عامر بن سعد اپنے والد محترم سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سلام پھیرتے (تو اس قدر گردن موڑتے) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار کی سفیدی نظر آنے لگتی، اور اپنی بائیں جانب بھی سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 726]