سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ شریف کی طرف پھیر دیا گیا۔ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان کرنے والا آیا اور اُس نے اعلان کیا کہ بلاشبہ قبلہ، کعبہ شریف کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔ میں نے یہ تمام احادیث کتاب الصلاة الكبير میں بیان کی ہیں، امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ قبلہ صرف کعبہ شریف ہی ہے۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک شخص اہل قبا کے پاس گیا اور کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ شریف کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھنے کا حُکم دے دیا گیا ہے۔ اور سیدنا عمارہ بن اوس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے اما م کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے اور مردوں اور عورتوں نے کعبہ شریف کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ شریف کی طرف مُنہ کرنے کا حُکم دیا گیا۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 436]
اور یہ بات اسی جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ عرب ایک ہی اسم کو دو مختلف چیزوں کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: Q437]
سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بیت المقدس کی طرف مُنہ کرکے سولہ ماہ تک نماز پڑھی، پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ ابواسحاق کہتے ہیں کہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک «شطر» سے مراد طرف و جانب ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 437]
حضرت عمرو بن دینار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (یہ آیت) اس طرح پڑھی، کیا ہم تمیں اس بات پر اپنی طرف سے مجبور کر سکتے ہیں۔ میں نے اس پہلو کو کتاب التفسیر میں مکمّل طور پر بیان کر دیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 438]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں وضو کرے پھرمسجد کی طرف آئے تو وہ واپس لوٹنے تک نماز ہی کے حُکم میں رہتا ہے۔ لہٰذا وہ ایسے نہ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک ہاتھ کی) اُنگلیوں کو (دوسرے ہاتھ کی) اُنگلیوں میں ڈالا۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 439]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”جب تم وضو کرو پھر مسجد میں داخل ہو تو اپنی اُنگلیوں میں تشبیک ہر گز نہ دینا۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 440]
اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو داؤد بن قیس فراء نے سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ کی سند سے ابو ثمامہ خیاط سے روایت کیا ہے کہ اُنہیں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے پھر مسجد کی طرف جائے تو اپنی اُنگلیوں کو ایک دوسری میں داخل نہ کرے کیونکہ وہ نماز (کے حُکم) میں ہوتا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 441]
حضرت ابوثمامہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ملا جبکہ میں جمعہ کے لئے جا رہا تھا اور میں نے اپنی اُنگلیاں ایک دوسری میں ڈالی ہوئی تھیں۔ پھر جب میں قریب ہوا تو اُنہوں نے میرے ہاتھوں پر مارا اور میری اُنگلیوں کو جدا کر دیا اور فرمایا کہ بلاشبہ ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ کوئی شخص نماز میں اپنی اُنگلیاں ایک دوسری میں ڈالے۔ میں نےعرض کی کہ میں (ابھی) نماز میں نہیں ہوں۔ اُنہوں نے فرمایا تو کیا تم نے وضو نہیں کیا اور کیا تم جمعہ کا ارادہ نہیں رکھتے؟ میں نے کہا کہ ہاں (یہ بات تو ہے) تو اُنہوں نے فرمایا کہ تو پھر تم نماز ہی میں ہو۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 442]
اس روایت کو ابن ابی ذئب، مقبری کی سند سے بنی سالم کے ایک شخص سے بیان کرتے ہیں، اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ سعد بن اسحاق بن کعب کا تعلق بنی سالم سے ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 443]
اور خالد بن حیان الرقی بہت بڑی مصیبت لائے ہیں۔ اُنہوں نے اس روایت کو ابن عجلان سے، سعید بن مسیّب کی سند سے حضرت ابوسعید رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے۔ ہمیں یہ حدیث جعفر بن محمد ثعلبی نے خالد بن حیان رقی سے بیان کی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 444]