حضرت معدان بن ابی طلحہ یعمری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے اُن سے عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع عطا فرمائے یا مجھے جنّت میں داخل فرما دے۔ کہتے ہیں کہ تین بار (میرے سوال کرنے کے باوجود) اُنہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا پھر میری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا کہ سجدے کیا کرو بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس (سجدے) کے ذریعے اُس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور اُس کی غلطی معاف کر دیتا ہے۔“ ابوعمار کہتے ہیں کہ ولید نے سجدہ کہا ہے، یعنی سین پر زبر روایت کی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 316]
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم طاقت رکھو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے کی نماز (نماز فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز (نماز عصر) سے مغلوب نہ ہوجاؤ۔ (تو اُنہیں بروقت ضرور ادا کر لینا۔)“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 317]
سیدنا ابوبکر بن عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے سورج طلوع ہونے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی اللہ تعالیٰ اُس پر آگ حرام کر دیتا ہے۔“ اہل بصرہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 318]
سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہرگز جہنؔم کی آگ میں داخل نہیں ہو گا جس نے سورج طلوع ہونے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی۔“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 319]
سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، ”کوئی شخص ہر گز آگ میں داخل نہیں ہو گا جس نے سُورج طلوع ہونے اور اُس کے غروب ہو نے سے پہلے نماز ادا کی۔“ تو اُن کے پاس اہل بصرہ میں سے ایک آدمی آیا تو اُس نے کہا کہ کیا آپ نے یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں، تو اُس نے کہا کہ اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ نے (اس فرمان کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 320]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بیشک اللہ تعالیٰ کے کُچھ فرشتے ہیں جو تمہارے پاس آگے پیچھے آتے رہتے ہیں۔ پھر جب نمازِ فجر کا وقت ہوتا ہے تو دن کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ تمہارے ساتھ اکٹھّے نماز میں حاضر ہوتے ہیں پھر رات کے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ اور دن کے فرشتے تمہارے ساتھ رہ جاتے ہیں، تو اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ اُن سے بخوبی واقف ہے، تم نے میرے بندوں کو کیا کرتے ہوئے چھوڑا ہے؟ فرمایا کہ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم نے اُنہیں نماز ادا کرتے ہوئے چھوڑا ہے۔ پھر جب نماز عصر کا وقت ہوتا ہے تو رات کے وقت فرشتے نازل ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھ اکٹھّے نماز ادا کرتے ہیں، پھر دن کے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور رات کے فرشتے تمہارے ساتھ رہ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ تو اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ اُنہیں بخوبی جانتا ہے، وہ فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کیا کرتے ہوئے چھوڑا ہے؟ فرمایا کہ میرا خیال ہے وہ کہتے ہیں، تو (اے الله) انہیں قیامت کے دن معاف فرما دینا۔“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 321]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کے فرشتے نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں۔ نماز فجر میں جمع ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ٹھہر جاتے ہیں اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں تو اُن سے اٗن کا رب سوال کرتا ہے تم نے میرے بندوں کوکیسے چھوڑا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اُن کے پاس آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ نماز اداکر رہے تھے لہٰذا تُو انہیں قیامت کے روز معاف فرمادینا۔“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 322]
حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے وقت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تمہیں وقت معلوم ہو جائے گا)“ پھر جب سورج ڈھل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی جبکہ سورج بلند اور صاف و روشن تھا، اور سورج غروب ہونے پر نماز مغرب ادا کی، اور نماز عشاء شفق غائب ہونے پر ادا کی، اور نماز فجر اندھیرے میں ادا کی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حٗکم دیا تو اُنہوں نے ظہر کی اذان دی اور اُسے ٹھنڈا کیا تو خوب ٹھنڈا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا تو اُنہوں نے نمازِ عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج زندہ (خوب روشن) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل سے زیادہ تاخیر سے ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے سرخی غائب ہو نے سے پہلے نماز مغرب کی اقامت کہی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے تہائی رات گزر نے پر عشاء کی نما ز قائم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم سے اُنہوں نے نماز فجر کو روشنی میں قائم کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے وقت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟“ اُس نے عرض کی کہ میں موجود ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری نمازوں کے اوقات اس کے درمیان ہیں جو تم نے (دو دن میں) دیکھا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں زعفرانی سے یہ الفاظ نہیں پائے ”مغرب دوسرے دن میں۔“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 323]
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 324
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اوقات نماز کے متعلق روایت بیان کرتے ہیں۔ بندار نے ہمیں اس سے زیادہ روایت بیان نہیں کی۔ بندار کہتے ہیں کہ میں اسے ابوداؤد سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اس روایت کے راوی پر نماز جنازہ پڑی جانی چائیے۔ بندار کہتے ہیں کہ تو میں نے اس روایت کو اپنی کتاب سے مٹا دیا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوداؤد پر نماز جنازہ پڑھی جانی چاہیے کیونکہ اُنہوں نے غلطی کے ہے۔ اور بندار کویہ حدیث اپنی کتاب سے مٹانے کی وجہ سے دس کوڑے مارے جانے چاہیے۔ یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ ثوری نے بھی علقمہ سے روایت کیا ہے ابوداؤد نے غلطی کھائی ہے اور بندار نے اس کو تبدیل کر دیا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ثوری نے بھی علقمہ سے روایت کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ حرمی بن عمارہ کی سند سے مکمّل حد یث بیان کر تے ہیں۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرما تے ہیں کہ یہ حد یث عراقیوں کے اس دعویٰ کی تردید کرتی ہے کہ حا کم کے پاس کوئی شخص یہ اقرار کرلے کہ فلاں شخص کے اس پر ایک سے دس درہم تک واجب ہیں تو اُس پر آٹھ درہم واجب ہوں گے۔ اس طرح اُنہوں نے اس محال بات کو طویل باب کی شکل دیدی ہے۔ اور اس غلط حُکم پر بیشمار فرعی مسائل کی بنیاد رکھی ہے۔ اُن کے اس قول سے یہ واجب ہوتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دن اور دو راتیں پانچوں نمازیں اُن کے اوقات کے بغیر پڑھائیں۔ کیونکہ اُن کے قول کا لازم یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات پہلے اور دوسرے وقت کے درمیان ہیں اور پہلا اور دوسرا وقت نماز کے وقت سے خارج ہے جیسا کے ان کا دعویٰ ہے کہ حا کم کے سا منے، ایک اور دس درہم، اقرا رکرنے والے کے اقرارسے خارج ہیں اور آٹھ درہم، ایک اور دس در ہم کے درمیان ہے۔ میں اس قسم کا طو یل مسئلہ املاء کروا چکا ہوں۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: 324]
247. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام پر پانچ نمازیں فرض تھیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت پر فرض ہیں
اور اُن کی نمازوں کے اوقات بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکی اُمّت کے نمازوں کے اوقات والے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الصَّلَاةِ/حدیث: Q325]