سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نے جس چیز کو بھی حرام ٹھہرایا ہے یقیناً اس کے علم میں ہے کہ اسے تم میں سے جھانکنے والا ضرور جھانک کر دیکھے گا، خبردار! بے شک میں تمہاری کمریں پکڑ کر تمہیں آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں (اور تم ایسے گر رہے ہو) جیسے پتنگے اور برساتی کیڑے (آگ میں) گرتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1131]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میری اور تمہاری مثال اس شخص جیسی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب اس (آگ) نے اس کا اردگرد روشن کر دیا تو پتنگے اور دوسرے جانور جو آگ میں گرتے ہیں، آکر اس میں گرنے لگے، پس میں تمہیں تمہاری کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ (میں گرنے) سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرے جا رہے ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1132]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6483، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2284، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6408، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2874، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8232، 11119، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1068، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3275»
حدیث نمبر: 1133
1133 - نا أَبُو مُحَمَّدٍ، نا إِسْمَاعِيلُ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْحَجَبِيُّ، نا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، نا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَالِي آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ»
سیدنا معاویہ بن حمیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا ہے کہ میں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر (تمہیں) آگ سے بچا رہا ہوں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1133]
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے ساتھ اشعری قبیلے کے دو آدمی بھی تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے موسی!“ یا فرمایا: ”اے عبدالله بن قیس! بے شک ہم اپنے کام پر ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1134]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2261، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1733، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3579، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3391، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2093، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1048، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19817»
ابوقتادہ اور ابود ہماء کہتے ہیں کہ ہم ایک دیہاتی شخص کے پاس آئے تو اس نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے ان باتوں کی تعلیم فرمائی جو اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو سیکھائی تھیں چنانچہ جو باتیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر) یاد کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: ”بے شک تو اللہ سے ڈر کر جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1135]
1136 - أنا بِهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، أنا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، نا ابْنُ عَفَّانَ، نا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، نا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَأَبِي بِلَالٍ رَجُلٌ قَدْ سَمَّاهُ
یہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی حمید بن ہلال سے ان کی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ یہ حدیث ابوقتادہ اور ابوبلال سے مروی ہے، اس آدمی کا انہوں نے نام بھی لیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1136]
حمید بن ہلال ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، اس نے کہا: کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک منبر رکھا گیا تھا جس کے پائے لوہے کے تھے، آپ نے مجھے جو تعلیم فرمائی میں نے یاد کرلی آپ نے فرمایا تھا: ”بے شک تو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس کے بدلے میں بہتر چیز عطا فرمائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1137]
حميد بن ہلال اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تھا یا آپ سے سنا تھا۔ اس نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ نے جو آپ کو علم عطا فرمایا ہے اس میں سے مجھے بھی تعلیم فرما دیجیے۔ آپ (منبر سے) نیچے تشریف لائے اور آپ کے لیے کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ایک کرسی رکھی گئی جس کے پائے لوہے کے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک تو اللہ سے ڈر کر جس چیز کو چھوڑے گا اللہ بدلے میں تجھے اس کی جگہ اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا۔“ رفاعہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک اجنبی آدمی ہوں، آپ سے دین کے سلسلے میں کچھ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، دین کے متعلق معلومات نہیں رکھتا، کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) نیچے تشریف لائے آپ نے اپنا خطبہ منقطع فرما دیا پھر کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ایک کرسی لائی گئی جس کے پائے لوہے کے تھے آپ مجھے تعلیم فرمانے لگے جو اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو سکھایا تھا پھر آپ (دوبارہ) اپنے خطبہ کے لیے (منبر پر) تشریف لے گئے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1138]
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اپنے مسلمان بھائی کو خوش کر دینا مغفرت کو واجب کرنے والے امور میں سے ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1139]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم الكبير: 2731،» جہم بن عثمان ابورجاء ضعیف ہے۔
مقدام بن شریح اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون ساعمل ہے جو مجھے جنت میں داخل کر دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک سلام پھیلانا اور اچھا کلام کرنا مغفرت کو واجب کرنے والے امور میں سے ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1140]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم الكبير: 469، جز: 22، مكارم الاخلاق للخرائطى: 148، تاريخ اصبهان: 407» سفیان ثوری مدلس کا عنعنہ ہے۔