سیدنا سفیان بن اسید حضر می رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھے جبکہ تو اس سے جھوٹ بولے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 611]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو داود: 4971، والادب المفرد: 393» ابوشریح اور اس کا والد مجہول ہے۔
سیدنا سفیان بن اسید رضی اللہ عنہ سے اسی کی مثل مروی ہے اور آپ نے فرمایا: ”بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھے اور تو اس سے چھوٹ بولے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 612]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو داود: 4971، والادب المفرد: 393» ابوشریح اور اس کا والد مجہول ہے۔
سیدنا سفیان بن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھے اور تو اس سے جھوٹ بولے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 613]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو داود: 4971، والادب المفرد: 393» ابوشریح اور اس کا والد مجہول ہے۔
398. یسے لگتا ہے جیسے حق اس دنیا میں (ہمارے بجائے) ہمارے غیروں پر واجب ہوا ہے اور جیسے موت اس (دنیا) میں (ہم پر نہیں) ہمارے غیروں پر لکھی گئی ہے جیسے مُردوں میں سے جن کی ہم مشایعت کرے ہیں وہ مسافر ہیں اور تھوڑے ہی عرصے تک ہماری طرف واپس آنے والے ہیں، ہم خود انہیں ان کی قبروں میں دفن کرتے ہیں اور ان کی میراث ایسے کھاتے ہیں جیسے ہم ان کے بعد ہمیشہ رہیں گے ہم تو ہر طرح کی نصیحت بھول چکے ہیں اور ہر مصیبت سے امن میں ہیں، خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس کے عیب اسے لوگوں کے عیوب سے غافل رکھیں اور وہ اپنے کمائے ہوئے مال کو گناہ کی جگہ پر خرچ نہ کرے اور اہل فقہ و حکمت سے میل جول رکے اور اہل ذلت و گناہ سے علیحدہ رہے، خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے آپ کو کمتر سمجھا اور اپنے اخلاق کو اچھا کیا اور ضرورت سے زائد مال میں سے خرچ کیا اور غیر ضروری بات سے رکا رہا اور سنت نے اسے وسیع کیا اور اس چھوڑ کر بدعت کی طرف مائل نہ ہوا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جدعاء اوٹنی پر (بیٹھے ہوئے) ہمیں خطبہ دیا تو آپ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ”اے لوگو!۔۔۔۔۔۔۔“ اور آپ نے یہ حدیث بیان کی۔ [مسند الشهاب/حدیث: 614]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه شعب الايمان: 10079، تاريخ دمشق: 54/ 240، الكامل: 2/ 61» ابان بن ابی عیاش سخت ضعیف ہے۔
399. خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس کی کمائی پاکیزہ ہو، جس کا باطن اچھا ہو، جس کا ظاہر عمدہ ہو اور جس نے اپنی برائی لوگوں سے دور رکھی، خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے علم پر عمل کیا
سیدنا رکب مصری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے (اپنے اندر) کوئی نقص وعیب نہ ہونے کے باوجود عاجزی اختیارکی اور فقر ومحتاجی نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کم تر سمجھا اور اس مال میں سے خرچ کیا جو اس نے بغیر کسی گناہ کے جمع کیا تھا اور اہل فقہ و حکمت سے میل جول رکھا اور غریب و مسکین لوگوں پر رحم کیا، خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس کی کمائی پاکیزہ ہوں، جس کا باطن اچھا ہو، جس کا ظاہر عمدہ ہو اور جس نے اپنی برائی لوگوں سے دور رکھی، خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے علم پر عمل کیا، ضرورت سے زائد مال میں سے خرچ کیا اور غیر ضروری بات سے رکا رہا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 615]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه شعب الايمان: 3116، ابن الاعرابي: 2307» عنبسہ بن سعیدبن غنیم ضعیف ہے، اس میں اور بھی علتیں ہیں۔
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جسے اسلام کی ہدایت مل گئی اور جس کی گزران بقدر کفاف ہو اور وہ قناعت کی دولت سے بہرہ ور ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 616]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 705، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 99، 7237، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11793، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2349، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24576، والطبراني فى «الكبير» برقم: 786، 787»
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک انہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”وہ شخص فلاح پا گیا جسے اسلام کی ہدایت مل گئی اور جس کی گزران بقدر کفاف ہو اور وہ اس پر قناعت کی دولت سے بہرہ ور ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 617]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 705، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 99، 7237، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11793، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2349، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24576، والطبراني فى «الكبير» برقم: 787»
401. ابن آدم! تیرے پاس وہ ہے جو تجھے کافی ہے جبکہ تو ایسی چیز طلب کرتا ہے جو تجھے سرکش بنا دے۔ ابن آدم! تو تھوڑے پر قناعت نہیں کرتا اور زیادہ سے سیر نہیں ہوتا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم! تیرے پاس وہ ہے جو تجھے کافی ہے جبکہ تو ایسی چیز طلب کرتا ہے جو تجھے سرکش بنا دے۔ ابن آدم! تو تھوڑے پر قناعت نہیں کرتا اور زیادہ سے سیر نہیں ہوتا۔ جب تو نے اس حال میں صبح کی کہ تو جسمانی طور پر تندرست تھا، اپنے متعلق مطمئن اور بے خوف تھا اور تیرے پاس تیرے دن بھر کی خوراک موجود تھی تو پھر دنیا پر تو خاک ڈال۔“[مسند الشهاب/حدیث: 618]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه شعب الايمان: 9876 تاريخ دمشق: 16/ 212، الكامل لابن عدي 5/ 231» ابوبکر الداہری سخت ضعیف ہے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی سائل آتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حاجت طلب کی جاتی تو آپ فرماتے: ”تم سفارش کرو تمہیں اجر دیا جائے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 619]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1432، 6027، 6028، 7476، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2627، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 531، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2557، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2348، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5131، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2672، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16777، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19893، والحميدي فى «مسنده» برقم: 789، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7296، والبزار فى «مسنده» برقم: 3181»
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میرے پاس کوئی سائل لایا جاتا ہے اور مجھ سے کسی حاجت کے سلسلے میں سوال کیا جاتا ہے اور تم میرے پاس ہوتے ہو تو تم سفارش کر دیا کرو تمہیں اجر ملے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند کرے گا فیصلہ فرمائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 620]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه مكارم الاخلاق للخرائطي: 602» سفیان ثوری مدلس کا عنعنہ ہے۔