سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مومن کا شرف اس کے قیام اللیل اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 151]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم الاوسط: 4278، وحاكم: 324/4، وشعب الايمان: 10058» زافر بن سلیمان ضعیف ہے۔
107. علم مؤمن کا جگری دوست ہے، حلم اس کا وزیر ہے، عقل اس کی دلیل ہے، نرمی اس کا بھائی ہے، رفق اس کا باپ ہے، عمل اس کا نگران ہے، اور صبر اس کے لشکروں کا امیر ہے۔“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم مؤمن کا جگری دوست ہے، عقل اس کی دلیل ہے، عمل اس کا راہنما ہے، رفق اس کا باپ ہے، نیکی اس کا بھائی ہے، اور صبر اس کے لشکروں کا امیر ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 152]
تخریج الحدیث: «موضوع» ، اس کی سند میں کئی نامعلوم راوی ہیں۔ دیکھئے: «السلسلة الضعيفة: 2379»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم مؤمن کا جگری دوست ہے، حلم اس کا وزیر ہے، عقل اس کی دلیل ہے، نرمی اس کا بھائی ہے، رفق اس کا باپ ہے، عمل اس کا نگران ہے، اور صبر اس کے لشکروں کا امیر ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 153]
تخریج الحدیث: «موضوع، محمد بن فور بن عبد الله بن مهدي اور اس كا استاد متهم بالكذب هيں (ميزان الاعتدال: 4/ 10)»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غیرت ایمان میں سے ہے اور مراء نفاق میں سے ہے“ راوی کہتا ہے کہ اہل کوفہ میں سے ایک شخص نے (راوی حدیث) زید بن اسلم سے کہا: مراء کیا ہے؟ انہوں نے کہا: بے غیرتی کرنا، اے عراقی! اس حدیث میں لفظ ”مراء“ اسی طرح ”ر“ کے ساتھ آیا ہے اور وہ جو ابوعبید نے ”مذاء“ ذال کے ساتھ روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ”مذال“ ذال اور لام کے ساتھ بھی مردی ہے۔ لیکن درست پہلا ہی ہے۔ اور اس (مذاء) کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی پر دوسرے مردوں کو داخل کرے اور ایسے (بے غیرت) مرد کو قند ی اور دیوث کہا جاتا ہے اور یہ دونوں کلمے سریانی زبان کے ہیں اور لفظ ”مذاء مذی سے ماخوذ ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بے غیرتی کرتے ہیں۔ اور ہا لفظ ”مذال“ لام کے ساتھ تو یہ ان کے اس قول سے ہے آدمی کا تنگ آکر بھید کھول دینا۔ (یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں) جب کوئی شخص بے چین اور تنگ آکر کوئی راز فاش کر دے۔ قاضی ابوعبداللہ کہتے ہیں: صحیح لفظ ”مذاء“ ذال معجم کے ساتھ ہے اور مراء راء کے ساتھ جو ہے وہ کاتب کی غلطی ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 154]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه السنن الكبرى للبيهقي: 10/ 425» ابومرحوم مجہول ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں وعظ کر رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، بلاشبہ حیاء ایمان میں سے ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 155]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 24، وأبو داود: 4795،»
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء ایمان میں سے ہے۔“ اور امام مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں وعظ کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء ایمان میں سے ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 156]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم 36، وابن ماجه: 4184، وترمذي: 2615،»
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سادگی ایمان میں سے ہے، سادگی ایمان میں سے ہے، سادگی ایمان میں سے ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 157]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه السنة لعبد الله بن أحمد: 780، وشعب الايمان: 5762، والمعجم الكبير: 790»
سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر نصف ایمان ہے اور یقین مکمل ایمان ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 158]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم لابن الاعرابي: 592، و تاريخ مدينة السلام: 15/ 303» ۔ سفیان ثوری مدلس کا عنعنہ ہے نیز یعقوب بن حمید اور محمد بن خالد مجروح ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انس! ايمان دو نصف حصے هے: نصف شكر اور نصف صبر ہے“۔ [مسند الشهاب/حدیث: 159]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه شعب الايمان: 9264، وتاريخ جرجان: 712» یزید رقاشی ضعیف ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں، وہ بڑے رقیق القلب ہیں، ایمان اہل یمن کا ہے، فقہ اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن کی ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 160]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 4388، و مسلم 52»