اسلم جو مولیٰ ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ان سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عیاش کی ملاقات کو گئے مکّہ کی راہ میں، ان کے پاس نیبذ پائی (نبیذ اس پانی کو کہتے ہیں جس میں کھجور یا انگور بھگوئے جائیں)، اسلم نے کہا کہ اس شربت کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بہت چاہتے ہیں(1)۔ عبداللہ بن عیاش ایک بڑا سا پیالہ بھر کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لائے اور ان کے سامنے رکھ دیا، انہوں نے اس کو اٹھا کر پینا چاہا پھر سر اٹھا کر کہا: یہ شربت بہت اچھا ہے، پھر اس کو پیا، اس کے بعد ایک شخص ان کے داہنی طرف بیٹھا تھا اس کو دے دیا۔ جب عبداللہ بن عیاش لوٹ کر چلے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا: تو کہتا ہے کہ مکّہ بہتر ہے مدینہ سے؟ عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ وہ حرم ہے اللہ کا اور امن کی جگہ ہے، اور وہاں اس کا گھر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کے گھر اور حرم کا نہیں پوچھتا(2)۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو کہتا ہے کہ مکّہ بہتر ہے مدینہ سے؟ عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ مکّہ میں اللہ کا حرم ہے اور امن کی جگہ ہے، وہاں اس کا گھر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کے گھر اور حرم میں کچھ نہیں کہتا، پھر عبداللہ بن عیاش چلے گئے(3)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1612]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 21»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے(1)، جب سرغ میں پہنچے (سرغ ایک قریہ ہے وادی تبوک میں)، تو لشکر کے بڑے بڑے افسران سے ملے جیسے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی(2)، انہوں نے کہا: شام میں آج کل وباء ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ بلاؤ بڑے بڑے مہاجرین کو جنہوں نے پہلے ہجرت کی ہے، تو بلایا ان کو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور بیان کیا ان سے کہ شام میں وباء ہو رہی ہے، انہوں نے اختلاف کیا، بعضوں نے کہا: آپ کام کے واسطے نکلے ہیں (رعیت کا حال دیکھنے کو)، لوٹنا مناسب نہیں ہے، بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں اور صحابہ ہیں، مناسب نہیں کہ آپ ان کو اس وباء میں لے جائیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جاؤ، اور کہا بلاؤ انصار کو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انصار کو بلایا اور وہ آئے، ان سے مشورہ کیا، انہوں نے بھی مہاجرین کی مثل بیان کی اور اسی طرح اختلاف کیا۔ آپ نے کہا: جاؤ، پھر کہا: بلاؤ قریش کے بوڑھے بوڑھے لوگوں کو جہنوں نے ہجرت کی فتح مکّہ کے بعد، میں نے ان کو بلایا، ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا، بلکہ سب نے کہا: ہمارے نزدیک مناسب یہ ہے کہ آپ لوٹ جائیں اور لوگوں کو اس وباء میں نہ لے جائیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرادی کہ صبح کو میں اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ کو لوٹ چلوں گا)، پھر صبح کو سب لوگ اونٹ پر سوار ہو کر چلے، اور اس وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ جل جلالہُ کی تقدیر سے بھاگے جاتے ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی(3)۔ ہاں ہم بھاگتے ہیں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف(4)۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں، ایک کنارہ سر سبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو، اگر تو اپنے اونٹوں کو سر سبز اور شاداب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا، اور جو تو نے خشک اور خراب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا(5)۔ اتنے میں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کہیں کام کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: میں اس مسئلے کا عالم ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب تم سنو کہ کسی سر زمین میں وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی سر زمین میں وباء پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں۔“ کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے: اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ جل جلالہُ کی حمد بیان کی اور لوٹ کھڑے ہوئے(6)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1613]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، 2219، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2912، 2953، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 7479، 7480، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1683، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 22»
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم نے کیا سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب ہے جو بھیجا گیا تھا بنی اسرائیل کے گروہ پر“، یا یہ کہا کہ ”ان پر جو تم سے پہلے تھے، تو جب سنو تم کسی زمین میں طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی زمین میں طاعون پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں۔“ ابوالنصر نے کہا: نہ نکلو بھاگنے کے قصد سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1614]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3473، 5728، 6974، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2218، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2952، 2954، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7481، 7482، 7483، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1065، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6653، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22016، والحميدي فى «مسنده» برقم: 554، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 728، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20158، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 7042، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 23»
حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے، جب سرغ میں پہنچے ان کو خبر ملی شام میں وباء پڑی ہے۔ تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی زمین میں سنو کہ وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب وباء پڑے اس زمین میں جس میں تم ہو تو اس سے نکل نہ بھاگو۔“ یہ سن کر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرغ سے لوٹ آئے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1615]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2912، 2953، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 7479، 7480، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1682، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20159، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 24»
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سرغ سے لوٹ آئے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1616]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1688، والطبراني فى «الكبير» برقم: 266، 267، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 25»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک گھر رکبہ میں (رکبہ ایک مقام ہے درمیان میں عمرہ اور ذات عرق کے) پسند ہے مجھ کو شام میں دس گھروں سے۔ امام مالک رحمہ اللہ نےفرمایا: اس لیے کہ شام میں وباء تھی، اور رکبہ میں کوئی بیماری نہ تھی، وہاں طولِ عمر کا خیال تھا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1617]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 26»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بحث کی آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے، تو غالب ہوئے آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: تو وہی آدم (علیہ السلام) ہے کہ گمراہ کیا تو نے لوگوں کو، اور نکالا ان کو جنت سے۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا: تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہے کہ اللہ نے تجھے علم دیا ہر چیز کا، اور برگزیدہ کیا رسالت سے۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے کہا: باوجود اس کے تو مجھے ملامت کرتا ہے ایسے کام پر جو میری تقدیر میں لکھا جا چکا تھا، قبل میرے پیدا ہونے کے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1618]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3409، 4736، 4738، 6614، 7515، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2652، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6179، 6180، 6210، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10918، 10919، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4701، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2134، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 80، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7578، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1148، 1149، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20067، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1663، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 1»
حضرت مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا اس آیت کے متعلق: «﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ﴾ [الأعراف: 172] » یعنی: ”یاد کر اس وقت کو جب تیرے پروردگار نے آدم کی پیٹھ سے ان کی تمام اولاد کو نکالا، اور ان کو گواہ کیا ان پر اس بات کا کہ کیا میں نہیں ہوں پروردگار تمہارا۔ بولے کیوں نہیں، تو پروردگار ہے ہمارا۔ ہم نے اس واسطے گواہ کیا کہ کہیں ایسا نہ کہو تم قیامت کے روز کہ ہم تو اس سے غافل تھے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس آیت کی تفسیر کا سوال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جل جلالہُ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان میں اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اولاد نکالی، اور فرمایا: میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا، اور یہ لوگ جنتیوں کے کام کریں گے۔ پھر بایاں ہاتھ پھیرا ان کی پیٹھ پر اور اولاد نکالی، فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا، اور یہ جہنمیوں کے کام کریں گے۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ(1)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کے واسطے، تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، اور موت کے وقت بھی وہ نیک عمل کر کے مرتا ہے، تو اللہ جل جلالہُ اسے جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ موت بھی اسے برے کام پر آتی ہے، تو اسے جہنم میں داخل کرتا ہے۔“(2)[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1619]
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6166، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 75، 3275، 4023، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 11126، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3075، وأحمد فى «مسنده» برقم: 311، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3886، 3887، 3888، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 2»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”چھوڑے جاتا ہوں میں تم میں دو چیزوں کو، نہیں گمراہ ہو گے جب تک پکڑے رہو گے ان کو، کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1620]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، انفرد به المصنف من هذا الطريق شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو شواہد کی بناء پر صحیح لغیرہ قرار دیا ہے اور شیخ احمد علی سلیمان نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 3»
حضرت طاؤس الیمانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے چند صحابہ کو پایا، کہتے تھے: ہر چیز تقدیر سے ہے۔ طاؤس نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، کہتے تھے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”ہر چیز تقدیر سے ہے، یہاں تک کہ عاجزی اور ہوشیاری بھی۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1621]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6149، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20941، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5893، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 4»