حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جاہلیت کے بچوں کو جو ان کا دعویٰ کرتا اسلام کے زمانے میں اسی سے ملا دیتے (یعنی نسب ثابت کر دیتے)۔ ایک بار دو آدمی دعویٰ کرتے ہوئے آئے ایک لڑکے کا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قائف کو (یعنی قیافہ جاننے والے کو) بلایا، قائف نے دیکھ کر کہا: اس لڑکے میں دونوں شریک ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قائف کو درّے سے مارا، پھر اس عورت کو (یعنی لڑکے کی ماں کو) بلایا اور کہا: تو اپنا حال مجھ سے کہہ۔ اس نے ایک مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے پاس آتا تھا اور میں اپنے لوگوں کے اونٹوں میں ہوتی تھی، تو وہ مجھ سے الگ نہیں ہوتا تھا بلکہ مجھ سے چمٹا رہتا تھا (یعنی جماع کیا کرتا تھا)، یہاں تک کہ وہ بھی اور میں بھی گمان کرتے حمل رہ جانے کا، پھر یہ چلا جاتا اور مجھے خون آیا کرتا، تب دوسرا مرد آتا، وہ بھی صحبت کرتا، میں نہیں جانتی ان دونوں میں سے یہ کس کا نطفہ ہے۔ قائف یہ سن کر خوشی کے مارے پھول گیا (کیونکہ اس کی بات سچی نکلی)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لڑکے سے: تجھے اختیار ہے، جس سے چاہے ان دنوں میں سے موالات کر لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1436]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21263، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5999، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12864، 13478، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6165، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 22»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب ایک عورت نے دھوکہ سے اپنے کو آزاد قرار دے کر ایک شخص سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی، یہ فیصلہ کیا کہ (وہ عورت لونڈی رہے اپنے مولیٰ کی، اور اولاد بھی اس کی مملوک ہے)، خاوند اپنی اولاد کو فدیہ دے کر چھڑا لے اس کے مانند غلام لونڈی دے کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1437]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم:219/7، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4257، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13155، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 23»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے، ایک شخص مر جائے اور کئی بیٹے چھوڑ جائے، اب ایک بیٹا ان میں سے یہ کہے کہ میرے باپ نے یہ کہا تھا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے، تو ایک آدمی کے کہنے سے اس کا نسب ثابت نہ ہوگا، اور وارثوں کے حصّوں میں سے اس کو کچھ نہ ملے گا، البتہ جس نے اقرار کیا ہے اس کے حصّے میں سے اس کو ملے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1438Q1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی تفسیر یہ ہے ایک شخص مر جائے اور دو بیٹے چھوڑ جائے اور چھ سو دینار، ہر ایک بیٹا تین تین سو دینار لے، پھر ایک بیٹا یہ کہے کہ میرے باپ نے اقرار کیا تھا اس امر کا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے، تو وہ اپنے حصّے میں سے اس کو سو دینار دے، کیونکہ ایک وارث نے اقرار کیا ایک نے اقرار نہ کیا، تو اس کو آدھا حصّہ ملے گا، اگر وہ بھی اقرار کر لیتا تو پورا حصّہ یعنی دو سو دینار ملتے اور نسب ثابت ہوجاتا، اس کی مثال یہ ہے ایک عورت اپنے باپ یا خاوند کے ذمے پر قرض کا اقرار کرے، اور باقی وارث انکار کریں، تو وہ اپنے حصّے کے موافق اس میں سے قرضہ ادا کرے، اسی حساب سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1438Q2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک مرد بھی اس قرض خواہ کے قرضے کا گواہ ہو تو اس کو حلف دے کر ترکے میں سے پورا قرضہ دلادیں گے۔ کیونکہ ایک مرد جب گواہ ہو اور مدعی بھی حلف کرے تو دعویٰ ثابت ہوجاتا ہے، البتہ اگر قرض خواہ حلف نہ کرے تو جو وارث اقرار کرتا ہے اسی کے حصّے کے موافق قرضہ وصول کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1438Q3]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا حال ہے لوگوں کا، جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے، پھر ان سے جدا ہو جاتے ہیں، اب سے میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور اس کے مولیٰ کو اقرار ہوگا اس سے جماع کرنے کا، تو میں اس لڑکے کو مولیٰ سے ملادوں گا۔ تم کو اختیار ہے چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1438]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم:15403، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4597، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12522، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2062، 2064، 2073، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 24»
حضرت صفیہ بنت ابی عبید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا حال ہے لوگوں کا، جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں، وہ نکلی پھرتی ہیں، اب میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور مولیٰ کا اقرار ہوگا اس سے صحبت کرنے کا تو میں اس کے لڑکے کا نسب مولیٰ سے ثابت کردوں گا، اب اس کے بعد چاہے انہیں بھیجا کرو چاہے روکے رکھا کرو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1439]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم:15404، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4598، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12523، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2063، 2064، 2073، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4726، 4727، 4728، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 25»
امام مالک رحمہ اللہ نےفرمایا کہ اُم ولد جب جنایت کرے تو مولیٰ اس کا تاوان دے، اور اُم ولد کو اس جنایت کے عوض میں نہیں دے سکتا، مگر قیمت سے زیادہ تاوان نہ دے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1439B1]
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بنجر زمین کو آباد (زرخیز کھیتی) کرے وہ اسی کی ہے، جو شخص ظلم سے وہاں کچھ تصرف کرے اس کو کچھ حق نہیں ہے۔“ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1440]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: قبل الحديث برقم: 2335، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 5727، 5728، 5729، 5730، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3073، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1378، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11654، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2938، 4506، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25523، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 26»