الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث (1852)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْقِرَاضِ
کتاب: قراض کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْقِرَاضِ
1. قراض کا بیان
حدیث نمبر: 1399
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ ابْنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي جَيْشٍ إِلَى الْعِرَاقِ، فَلَمَّا قَفَلَا مَرَّا عَلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَهُوَ أَمِيرُ الْبَصْرَةِ، فَرَحَّبَ بِهِمَا وَسَهَّلَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَقْدِرُ لَكُمَا عَلَى أَمْرٍ أَنْفَعُكُمَا بِهِ لَفَعَلْتُ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى هَاهُنَا مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّهِ أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَ بِهِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَأُسْلِفُكُمَاهُ فَتَبْتَاعَانِ بِهِ مَتَاعًا مِنْ مَتَاعِ الْعِرَاقِ، ثُمَّ تَبِيعَانِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَتُؤَدِّيَانِ رَأْسَ الْمَالِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَيَكُونُ الرِّبْحُ لَكُمَا. فَقَالَا: وَدِدْنَا ذَلِكَ. فَفَعَلَ، وَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُمَا الْمَالَ، فَلَمَّا قَدِمَا بَاعَا فَأُرْبِحَا، فَلَمَّا دَفَعَا ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ، قَالَ:" أَكُلُّ الْجَيْشِ أَسْلَفَهُ مِثْلَ مَا أَسْلَفَكُمَا؟" قَالَا: لَا. فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:" ابْنَا أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَسْلَفَكُمَا أَدِّيَا الْمَالَ وَرِبْحَهُ". فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَسَكَتَ، وَأَمَّا عُبَيْدُ اللَّهِ، فَقَالَ: مَا يَنْبَغِي لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا، لَوْ نَقَصَ هَذَا الْمَالُ أَوْ هَلَكَ لَضَمِنَّاهُ. فَقَالَ عُمَرُ:" أَدِّيَاهُ". فَسَكَتَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَاجَعَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ عُمَرَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَوْ جَعَلْتَهُ قِرَاضًا. فَقَالَ عُمَرُ" قَدْ جَعَلْتُهُ قِرَاضًا" . فَأَخَذَ عُمَرُ رَأْسَ الْمَالِ وَنِصْفَ رِبْحِهِ، وَأَخَذَ عَبْدُ اللَّهِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ ابْنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نِصْفَ رِبْحِ الْمَالِ
حضرت زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ اور سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہما بیٹے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایک لشکر کے ساتھ نکلے جہاد کے واسطے عراق کی طرف، جب لوٹے تو سیدنا ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو حاکم تھے بصرہ کے۔ انہوں نے کہا: مرحباً اور سہلاً، پھر کہا: کاش میں تم کو کچھ نفع پہنچا سکتا تو پہنچاتا، میرے پاس کچھ روپیہ ہے اللہ کا جس کو میں بھیجنا چاہتا ہوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس، تو میں وہ روپے تم کو قرض دے دیتا ہوں، اس کا اسباب خرید لو عراق سے، پھر مدینہ میں اس مال کو بیچ کر اصل روپیہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیدینا اور نفع تم لے لینا۔ انہوں نے کہا: ہم بھی یہ چاہتے ہیں۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ ان دونوں سے اصل روپیہ وصول کر لیجئے گا۔ جب دونوں مدینہ کو آئے، انہوں نے مال بیچا اور نفع حاصل کیا، پھر اصل مال لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لشکر کے سب لوگوں کو اتنا اتنا روپیہ قرض دیا تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم کو امیر المؤمنین کا بیٹا سمجھ کر یہ روپیہ دیا ہوگا، اصل روپیہ اور نفع دونوں دے دو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تو چپ ہو رہے اور سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اگر مال تلف ہوتا یا نقصان ہوتا تو ہم ضمان دیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، دے دو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ چپ ہو رہے۔ سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے پھر جواب دیا، اتنے میں ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مصاحبوں میں سے (سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) بولے: اے امیر المؤمنین! تم اس کو مضاربت کر دو تو بہتر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اصل مال اور نصف نفع لیا، اور سیدنا عبداللہ اور سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہما نے آدھا نفع لیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقِرَاضِ/حدیث: 1399]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11605، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3702، والشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 33/4، والشافعي فى «المسنده» برقم: 357/2، فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1400
وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ " أَعْطَاهُ مَالًا قِرَاضًا يَعْمَلُ فِيهِ عَلَى أَنَّ الرِّبْحَ بَيْنَهُمَا"
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مال دیا یعقوب کومضاربت کے طور پر تاکہ یعقوب محنت کریں اور نفع میں شریک ہوں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقِرَاضِ/حدیث: 1400]
تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11606، 11607، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 2149، فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 2»

2. بَابُ مَا يَجُوزُ فِي الْقِرَاضِ
2. جس طرح مضاربت درست ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1401Q1
قَالَ مَالِكٌ: وَجْهُ الْقِرَاضِ الْمَعْرُوفِ الْجَائِزِ أَنْ يَأْخُذَ الرَّجُلُ الْمَالَ مِنْ صَاحِبِهِ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ، وَلَا ضَمَانَ عَلَيْهِ، وَنَفَقَةُ الْعَامِلِ فِي الْمَالِ، فِي سَفَرِهِ مِنْ طَعَامِهِ وَكِسْوَتِهِ، وَمَا يُصْلِحُهُ بِالْمَعْرُوفِ، بِقَدْرِ الْمَالِ إِذَا شَخَصَ فِي الْمَالِ، إِذَا كَانَ الْمَالُ يَحْمِلُ ذَلِكَ. فَإِنْ كَانَ مُقِيمًا فِي أَهْلِهِ، فَلَا نَفَقَةَ لَهُ مِنَ الْمَالِ، وَلَا كِسْوَةَ.
قَالَ مَالِكٌ: وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُعِينَ الْمُتَقَارِضَانِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَلَى وَجْهِ الْمَعْرُوفِ، إِذَا صَحَّ ذَلِكَ مِنْهُمَا. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَشْتَرِيَ رَبُّ الْمَالِ مِمَّنْ قَارَضَهُ بَعْضَ مَا يَشْتَرِي مِنَ السِّلَعِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ صَحِيحًا عَلَى غَيْرِ شَرْطٍ.
قَالَ مَالِكٌ: فِيمَنْ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ، وَإِلَى غُلَامٍ لَهُ مَالًا قِرَاضًا يَعْمَلَانِ فِيهِ جَمِيعًا، إِنَّ ذَلِكَ جَائِزٌ لَا بَأْسَ بِهِ، لِأَنَّ الرِّبْحَ مَالٌ لِغُلَامِهِ، لَا يَكُونُ الرِّبْحُ لِلسَّيِّدِ حَتَّى يَنْتَزِعَهُ مِنْهُ، وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ غَيْرِهِ مِنْ كَسْبِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضاربت اس طور پر درست ہے کہ آدمی ایک شخص سے روپیہ لے اس شرط پر کہ محنت کرے گا، لیکن اگر نقصان ہو تو اس پر ضمان نہ ہوگا، اور مضاربت کا خرچ سفر کی حالت میں کھانے پینے سواری کا دستور کے موافق اسی مال میں سے دیا جائے گا، نہ کہ اقامت کی حالت میں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب رب المال کی مدد کرے، یا رب المال کی دستور کے موافق بغیر شرط کے تو درست ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر رب المال ایک غیر شخص اور ایک اپنے غلام کو مال دے مضاربت کے طور پر اس شرط سے کہ دونوں محنت کریں تو درست ہے، اور غلام کے حصّہ کا نفع غلام کے پاس رہے گا، مگر جب مولیٰ اس سے لے لے تو مولیٰ کا ہوجائے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقِرَاضِ/حدیث: 1401Q1]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

حدیث نمبر: 1401Q2
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

حدیث نمبر: 1401Q3
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

حدیث نمبر: 1401Q4
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

3. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ فِي الْقِرَاضِ
3. جس طور سے مضاربت درست نہیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 1401Q5
قَالَ مَالِكٌ: إِذَا كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَجُلٍ دَيْنٌ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُقِرَّهُ عِنْدَهُ قِرَاضًا، إِنَّ ذَلِكَ يُكْرَهُ حَتَّى يَقْبِضَ مَالَهُ، ثُمَّ يُقَارِضُهُ بَعْدُ أَوْ يُمْسِكُ، وَإِنَّمَا ذَلِكَ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ أَعْسَرَ بِمَالِهِ، فَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُؤَخِّرَ ذَلِكَ عَلَى أَنْ يَزِيدَهُ فِيهِ.
قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَهَلَكَ بَعْضُهُ، قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ، ثُمَّ عَمِلَ فِيهِ فَرَبِحَ، فَأَرَادَ أَنْ يَجْعَلَ رَأْسَ الْمَالِ بَقِيَّةَ الْمَالِ بَعْدَ الَّذِي هَلَكَ مِنْهُ، قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ، قَالَ مَالِكٌ: لَا يُقْبَلُ قَوْلُهُ، وَيُجْبَرُ رَأْسُ الْمَالِ مِنْ رِبْحِهِ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ عَلَى شَرْطِهِمَا، مِنَ الْقِرَاضِ.
قالَ مَالِكٌ: لَا يَصْلُحُ الْقِرَاضُ إِلَّا فِي الْعَيْنِ مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ، وَلَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْعُرُوضِ، وَالسِّلَعِ، وَمِنَ الْبُيُوعِ مَا يَجُوزُ إِذَا تَفَاوَتَ أَمْرُهُ، وَتَفَاحَشَ رَدُّهُ، فَأَمَّا الرِّبَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ فِيهِ إِلَّا الرَّدُّ أَبَدًا، وَلَا يَجُوزُ مِنْهُ قَلِيلٌ، وَلَا كَثِيرٌ، وَلَا يَجُوزُ فِيهِ مَا يَجُوزُ فِي غَيْرِهِ، لِأَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ: ﴿وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ، وَلَا تُظْلَمُونَ﴾.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو، پھر قرضدار یہ کہے قرض خواہ سے: تو اپنا روپیہ مضاربت کے طور پر رہنے دے میرے پاس، تو یہ درست نہیں، بلکہ قرض خواہ کو چاہیے کہ اپنا روپیہ وصول کر لے، پھر اختیار ہے خواہ مضاربت کے طور پر دے یا اپنے پاس رکھ چھوڑے، کیونکہ قبل روپیہ وصول کرنے کے اس کو مضاربت کر دینے میں ربا کا شبہ ہے، گویا قرضدار نے مہلت لے کر قرض میں زیادتی کی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے دوسرے کو روپیہ دیا مضاربت کے طور پر، پھر اس میں سے کچھ روپیہ تلف ہوگیا قبل تجارت شروع کرنے کے، پھر مضارب نے جس قدر روپیہ بچا تھا اس میں تجارت کر کے نفع کمایا، اب مضارب یہ چاہے کہ رأس المال اسی کو قرار دے جو بچ رہا تھا بعد نقصان کے، اور جس قدر اس سے زیادہ ہو اس کو نفع سمجھ کر آدھوں آدھ بانٹ لے، تو یہ نہیں ہوسکتا، بلکہ رأس المال کی تکمیل کر کے جو کچھ بچے گا اس کو شرط کے موافق تقسیم کرلیں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضاربت درست نہیں مگر چاندی اور سونے میں، اور اسباب وغیرہ میں درست نہیں، لیکن قراض اور بیوع میں اگر فساد قلیل ہو اور فسخ اُن کا دشوار ہو، تو جائز ہوجائیں گے برخلاف ربا کے کہ وہ قلیل وکثیر حرام ہے، کسی طرح جائز نہیں، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: اگر تم توبہ کرو ربا سے، تو تم کو اصل مال ملے گا، نہ ظلم کرو نہ ظلم کیے جاؤ۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقِرَاضِ/حدیث: 1401Q5]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

حدیث نمبر: 1401Q6
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

حدیث نمبر: 1401Q7
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»

4. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشَّرْطِ فِي الْقِرَاضِ
4. مضاربت میں جو شرط درست ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1401Q8
قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا، وَشَرَطَ عَلَيْهِ أَنْ لَا تَشْتَرِيَ بِمَالِي إِلَّا سِلْعَةَ كَذَا وَكَذَا، أَوْ يَنْهَاهُ أَنْ يَشْتَرِيَ سِلْعَةً بِاسْمِهَا، مَنِ اشْتَرَطَ عَلَى مَنْ قَارَضَ أَنْ لَا يَشْتَرِيَ حَيَوَانًا أَوْ سِلْعَةً بِاسْمِهَا، فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ.
قَالَ مَالِكٌ: وَمَنِ اشْتَرَطَ عَلَى مَنْ قَارَضَ أَنْ لَا يَشْتَرِيَ إِلَّا سِلْعَةَ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ ذَلِكَ مَكْرُوهٌ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ السِّلْعَةُ الَّتِي أَمَرَهُ أَنْ لَا يَشْتَرِيَ غَيْرَهَا كَثِيرَةً مَوْجُودَةً لَا تُخْلِفُ فِي شِتَاءٍ وَلَا صَيْفٍ فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ.
قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا، وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ فِيهِ شَيْئًا مِنَ الرِّبْحِ خَالِصًا دُونَ صَاحِبِهِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَإِنْ كَانَ دِرْهَمًا وَاحِدًا، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ نِصْفَ الرِّبْحِ لَهُ، وَنِصْفَهُ لِصَاحِبِهِ أَوْ ثُلُثَهُ أَوْ رُبُعَهُ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرَ، فَإِذَا سَمَّى شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا، فَإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ سَمَّى مِنْ ذَلِكَ حَلَالٌ وَهُوَ قِرَاضُ الْمُسْلِمِينَ.
قَالَ مَالِكٌ: وَلَكِنْ إِنِ اشْتَرَطَ أَنَّ لَهُ مِنَ الرِّبْحِ دِرْهَمًا وَاحِدًا فَمَا فَوْقَهُ خَالِصًا لَهُ دُونَ صَاحِبِهِ، وَمَا بَقِيَ مِنَ الرِّبْحِ فَهُوَ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَلَيْسَ عَلَى ذَلِكَ قِرَاضُ الْمُسْلِمِينَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو اپنا مال مضاربت کے طور پر دے اور یہ شرط لگائے کہ فلاں فلاں قسم کا اسباب نہ خریدنا، تو اس میں کچھ قباحت نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر یہ شرط لگائے کہ فلاں ہی قسم کا مال خریدنا تو مکروہ ہے۔ مگر جب وہ اسباب کثرت سے ہر فصل میں بازار میں رہتا ہو، تو کچھ قباحت نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر رب المال مضاربت میں کچھ خاص نفع اپنے لیے مقرر کرے، اگرچہ ایک درہم ہو، تو درست نہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ مضارب کے واسطے آدھا یا تہائی یا پاؤ نفع ٹھہرائے اور باقی اپنے لیے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر حصّہ سے زیادہ ایک درہم بھی ٹھہراے گا تو مضاربت درست نہ ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقِرَاضِ/حدیث: 1401Q8]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»


1    2    3    4    5    Next