حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن اپنے پھلوں کو بیچتیں اور اس میں سے کچھ نکال لیتیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو آدمی اپنے باغ کا میوہ بیچے اس کو اختیار ہے کہ تہائی مال تک مستثنیٰ کرے، اس سے زیادہ درست نہیں، اور جو سارے باغ میں سے ایک درخت یا درخت کے پھل مستثنیٰ کر لے اور اس کو معین کر دے تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے، کیونکہ گویا مالک نے سوائے ان درختوں کے باقی کو بیچا اور ان کو نہ بیچا اس امر کا مالک کو اختیار ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1322]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3416، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21614، والشافعي فى «الاُم» برقم: 60/3، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 19»
حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھجور کو کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا عامل خیبر پر ایک صاع کھجور لے کر دو صاع دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاؤ اس کو۔“ وہ بلایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو دو صاع کھجور دے کر ایک صاع لیتا ہے؟ وہ بولا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک صاع بہتر کھجور اور ایک صاع بری کھجور کے بدلے میں نہیں آتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور کو خرید کر لے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1323]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3369، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 498/4، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 20»
سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو عامل مقرر کیا خیبر پر، وہ عمدہ کھجور لے کر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”سب کھجوریں خبیر کی ایسی ہی ہوتی ہیں؟“ وہ بولا: نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اس کھجور میں سے ایک صاع دو صاع کے بدلے میں یا دو صاع تین صاع کے بدلے میں خرید کیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کر، پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور روپے دے کر خرید لے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1324]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2201، 2302، 4244، 7350، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1593، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5020، 5021، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4557، 4558، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6100، 6101، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2619، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10629، 10654، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2849، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11423، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 21»
حضرت زید بن ابوعیاش سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہ جَو کو سلت (ایک غلہ کا نام ہے درمیان میں گیہوں اور جَو کے، غور اور حجاز میں پیدا ہوتا ہے) کے بدلے میں بیچ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: دونوں میں کونسا اچھا ہے؟ بولے: جَو۔ تو منع کیا اس سے، اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے پوچھا کہ خشک کھجور کو رطب (تر کھجور کے) بدلے میں بیچنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رطب جب سوکھ جاتا ہے تو وزن اس کا کم ہو جاتا ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1325]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3359، 3360، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4997، 5003، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2277، 2278، 2279، 2280، 2296، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4549، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5991، 6091، 6092، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1225، 1225، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2264، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10599، وأحمد فى «مسنده» برقم: 515، والحميدي فى «مسنده» برقم: 75، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2994، 2995، 2996، 2997، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 22»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مزابنہ سے۔ مزابنہ اس کو کہتے ہیں کہ درخت پر پھل کھجور یا انگور اندزہ کر کے خشک کھجور یا انگور کے بدلے میں فروخت کی جائیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1326]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2171، 2172، 2185، 2205، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1542،، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4996، 4998، 4999، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4537، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6079، 6080، 6095، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3361، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2265، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10560، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2987، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4528، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1329، وانظر الترمذي: 1300، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 23»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مزابنہ اور محاقلہ سے۔ مزابنہ کے معنی اوپر بیان ہوئے اور محاقلہ اس کو کہتے ہیں کہ گہیوں کا کھیت بدلے میں خشک گہیوں کے بیچے۔ سوا گیہوں کے اور جتنے اناج ہیں سب کا یہی حکم ہے، محاقلہ کے مشہور معنی یہی ہیں جو ترجمے میں بیان ہوئے، اور حدیث میں جو امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیے وہ یہ ہیں: کرایہ دینا زمین کا بعوض گیہوں کے، یعنی ایک شخص اپنی زمین کسی کو گیہوں بونے کو دے، اور اس کا کرایہ کسی قدر گیہوں ٹھہرا لے جب اس میں اُگیں، اس کو مخابرہ بھی کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1327]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2186، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1546، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3916، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4598، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2599، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2455، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10752، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11035، والدارمي فى «سننه» برقم: 2557، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1191، 1269، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 23033، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2695، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 24»
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا مزابنہ اور محاقلہ سے، دونوں کے معنی اوپر گزرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1328]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1539، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3924، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4604، 4605، 4606، 4651، 11709، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11845، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14444،، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22875، 22877، 22883، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 25»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو چیز ڈھیر لگا کر بیچی جائے، اور اس کا وزن اور کیل معلوم نہ ہو، تولی اور ناپی ہوئی چیز کے بدلے میں وہ مزابنہ میں داخل ہے (بشرطیکہ ایک جنس ہو)۔ اگر ایک شخص دوسرے سے کہے کہ یہ جو تیرا ڈھیر پڑا ہے، گیہوں یا کھجور یا چارہ یا گٹھلیوں یا گھاس یا کسم یا روئی یا کتان یا ریشم کا، اس کو ناپ یا تول یا شمار، اگر قدر سے کم نکلے تو میں تجھ کو مجرا دوں گا، اور جو زیادہ نکلے تو میں لے لوں گا، اس قسم کی بیع درست نہیں ہے، بلکہ یہ جوئے کے مشابہ ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1328B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح اگر کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ یہ کپڑا اتنی ٹوپیوں کو کافی ہے، اگر کم پڑے تو میں دوں گا اور جو بڑھے میں لے لوں گا، یا اس کپڑے میں اتنے کرتے بنیں گے، اگر کم پڑے میں دے دوں گا اور جو زیادہ ہو لے لوں گا، یا اس قدر کھالوں میں اتنی جوتیاں بنیں گی، اگر کم پڑے میں دوں گا زیادہ ہو تو لے لوں گا، یا اس قدر دانوں میں اتنا تیل نکلے گا، اگر کم نکلے تو میں دوں گا زیادہ نکلے تو میرا ہے، یہ سب مزابنہ میں داخل ہے جائز نہیں، یا یوں کہے کہ تیرے اس ڈھیر کے بدلے میں پتوں یا گٹھلیوں یا روئی یا ترکاری یا کسم کے اس قدر پتے یا گٹھلیاں یا روئی یا ترکاری یا کسم تول ناپ کر دیتا ہوں، ہر ایک کو اس کی جنس کے ساتھ بیچے تو بھی نادرست ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1328B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کسی معین درختوں کے پھلوں کو خریدے، یا ایک باغ کے میووں کو خریدے، یا معین بکریوں کے دودھ کو خریدے، تو کچھ قباحت نہیں ہے، بشرطیکہ خریدار قیمت ادا کرتے ہی اپنا مال وصول کرنا شروع کر دے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روپیہ دے کر ایک کپہ میں سے کسی قدر گھی مول لے، اس میں کچھ قباحت نہیں ہے، اگر کپہ قبل گھی لینے کے پھٹ جائے اور گھی بہہ جائے تو خریدار اپنے روپے پھیر لے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q1]