الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث (1852)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي بَيْعِ الْعُرْبَانِ
1. بیع عربان کے بیان میں
حدیث نمبر: 1303
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الثِّقَةِ عِنْدَهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ" .
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا عربان کی بیع سے۔
[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1303]
تخریج الحدیث: «مرفوع حسن، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3502، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2192، 2193، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10985، 10986، 10987، 10988، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6838، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1303B1
. قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوِ الْوَلِيدَةَ، أَوْ يَتَكَارَى الدَّابَّةَ، ثُمَّ يَقُولُ لِلَّذِي اشْتَرَى مِنْهُ، أَوْ تَكَارَى مِنْهُ: أُعْطِيكَ دِينَارًا، أَوْ دِرْهَمًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَقَلَّ، عَلَى أَنِّي إِنْ أَخَذْتُ السِّلْعَةَ أَوْ رَكِبْتُ، مَا تَكَارَيْتُ مِنْكَ، فَالَّذِي أَعْطَيْتُكَ هُوَ مِنْ ثَمَنِ السِّلْعَةِ، أَوْ مِنْ كِرَاءِ الدَّابَّةِ، وَإِنْ تَرَكْتُ ابْتِيَاعَ السِّلْعَةِ أَوْ كِرَاءَ الدَّابَّةِ، فَمَا أَعْطَيْتُكَ لَكَ بَاطِلٌ بِغَيْرِ شَيْءٍ.

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے، پھر بائع سے یا جانور والے سے کہہ دے کہ میں تجھے ایک دینار یا کم زیادہ دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں اس غلام یا لونڈی کو خرید لوں گا تو وہ دینار اس کی قیمت میں سے سمجھنا، یا جانور پر سواری کروں گا تو کرایہ میں سے خیال کرنا، ورنہ میں اگر غلام یا لونڈی تجھے پھیر دوں یا جانور پر سوار نہ ہوں تو دینار مفت تیرا مال ہو جائے گا، اس کو واپس نہ لوں گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1303B1]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1303B2
. قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَبْتَاعَ الْعَبْدَ التَّاجِرَ الْفَصِيحَ بِالْأَعْبُدِ مِنَ الْحَبَشَةِ، أَوْ مِنْ جِنْسٍ مِنَ الْأَجْنَاسِ لَيْسُوا مِثْلَهُ فِي الْفَصَاحَةِ، وَلَا فِي التِّجَارَةِ وَالنَّفَاذِ وَالْمَعْرِفَةِ، لَا بَأْسَ بِهَذَا أَنْ تَشْتَرِيَ مِنْهُ الْعَبْدَ بِالْعَبْدَيْنِ، أَوْ بِالْأَعْبُدِ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ، إِذَا اخْتَلَفَ فَبَانَ اخْتِلَافُهُ، فَإِنْ أَشْبَهَ بَعْضُ ذَلِكَ بَعْضًا، حَتَّى يَتَقَارَبَ، فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، وَإِنِ اخْتَلَفَتْ أَجْنَاسُهُمْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو غلام تجارت کا فن خوب جانتا ہو، زبان اچھی بولتا ہو، اس کا بدلنا حبشی جاہل غلام سے درست ہے، اسی طرح اور اسباب کا جو دوسرے اسباب کی مثل نہ ہو، بلکہ اس سے زیادہ کھرا ہو، اور ایک غلام کا دو غلاموں کے عوض میں یا کئی غلاموں کے بدلے میں درست ہے، جب وہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے کھلا کھلا فرق رکھتی ہوں، اور جو ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو دو چیزوں کا ایک کے بدلے میں لینا درست نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1303B2]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1303B3
قَالَ مَالِكٌ: وَلَا بَأْسَ بِأَنْ تَبِيعَ مَا اشْتَرَيْتَ مِنْ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تَسْتَوْفِيَهُ، إِذَا انْتَقَدْتَ ثَمَنَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ. قَالَ مَالِكٌ: لَا يَنْبَغِي أَنْ يُسْتَثْنَى جَنِينٌ فِي بَطْنِ أُمِّهِ إِذَا بِيعَتْ، لِأَنَّ ذَلِكَ غَرَرٌ لَا يُدْرَى أَذَكَرٌ هُوَ أَمْ أُنْثَى، أَحَسَنٌ أَمْ قَبِيحٌ، أَوْ نَاقِصٌ، أَوْ تَامٌّ، أَوْ حَيٌّ، أَوْ مَيِّتٌ، وَذَلِكَ يَضَعُ مِنْ ثَمَنِهَا.

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سوا کھانے کی چیزوں کے اور اسباب کا بیچنا قبضہ سے پہلے درست ہے، مگر اور کسی کے ہاتھ نہ اسی بائع کے ہاتھ، بشرطیکہ قیمت دے چکا ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1303B3]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1303B4
. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَبْتَاعُ الْعَبْدَ أَوِ الْوَلِيدَةَ بِمِائَةِ دِينَارٍ، إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ يَنْدَمُ الْبَائِعُ، فَيَسْأَلُ الْمُبْتَاعَ: أَنْ يُقِيلَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ يَدْفَعُهَا إِلَيْهِ نَقْدًا، أَوْ إِلَى أَجَلٍ، وَيَمْحُو عَنْهُ الْمِائَةَ دِينَارٍ الَّتِي لَهُ.

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی حاملہ لونڈی کو بیچے مگر اس کے حمل کو نہ بیچے تو درست نہیں، اس واسطے کہ کیا معلوم ہے کہ وہ حمل مرد ہے یا عورت، خوبصورت ہے یا بد صورت، پورا ہے یا لنڈورا، زندہ ہے یا مردہ، تو کس طور سے اس کی قیمت لونڈی کی قیمت میں سے وضع کرے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1303B4]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1303B5
. قَالَ مَالِكٌ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَإِنْ نَدِمَ الْمُبْتَاعُ، فَسَأَلَ الْبَائِعَ أَنْ يُقِيلَهُ فِي الْجَارِيَةِ أَوِ الْعَبْدِ، وَيَزِيدَهُ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ نَقْدًا، أَوْ إِلَى أَجَلٍ أَبْعَدَ مِنَ الْأَجَلِ الَّذِي اشْتَرَى إِلَيْهِ الْعَبْدَ أَوِ الْوَلِيدَةَ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَنْبَغِي، وَإِنَّمَا كَرِهَ ذَلِكَ لِأَنَّ الْبَائِعَ كَأَنَّهُ بَاعَ مِنْهُ مِائَةَ دِينَارٍ لَهُ إِلَى سَنَةٍ، قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ بِجَارِيَةٍ، وَبِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ نَقْدًا، أَوْ إِلَى أَجَلٍ أَبْعَدَ مِنَ السَّنَةٍ، فَدَخَلَ فِي ذَلِكَ بَيْعُ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، إِلَى أَجَلٍ. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَبِيعُ مِنَ الرَّجُلِ الْجَارِيَةَ بِمِائَةِ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ يَشْتَرِيهَا بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ الثَّمَنِ الَّذِي بَاعَهَا بِهِ، إِلَى أَبْعَدَ مِنْ ذَلِكَ الْأَجَلِ الَّذِي بَاعَهَا إِلَيْهِ: إِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَتَفْسِيرُ مَا كَرِهَ مِنْ ذَلِكَ أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ يَبْتَاعُهَا إِلَى أَجَلٍ أَبْعَدَ مِنْهُ، يَبِيعُهَا بِثَلَاثِينَ دِينَارًا إِلَى شَهْرٍ، ثُمَّ يَبْتَاعُهَا بِسِتِّينَ دِينَارًا إِلَى سَنَةٍ أَوْ إِلَى نِصْفِ سَنَةٍ، فَصَارَ إِنْ رَجَعَتْ إِلَيْهِ سِلْعَتُهُ بِعَيْنِهَا، وَأَعْطَاهُ صَاحِبُهُ ثَلَاثِينَ دِينَارًا إِلَى شَهْرٍ، بِسِتِّينَ دِينَارًا إِلَى سَنَةٍ، أَوْ إِلَى نِصْفِ سَنَةٍ، فَهَذَا لَا يَنْبَغِي

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص یا ایک لونڈی ایک غلام سو دینار کو خریدے اور قیمت ادا کرنے کی ایک میعاد مقرر کرے (مثلاً ایک مہینے کے وعدے پر)، پھر بائع شرمندہ ہوکر خریدار سے کہے کہ اس بیع کو فسخ کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد یا اس قدر میعاد میں سے لے لے تو درست ہے، اور اگر مشتری شرمندہ ہو کر بائع سے کہے کہ بیع فسخ کر ڈال اور دس دینار مجھ سے لے لے یا اس میعاد کے بعد جو ٹھہری تھی تو درست نہیں، کیونکہ یہ ایسا ہوا گویا بائع نے اپنی میعاد سے سو دینار کو ایک لونڈی اور دس دینار نقد یا میعادی پر بیع کیا تو سونے کی بیع سونے سے ہوئی میعاد پر، اور یہ درست نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص ایک لونڈی بیچے تیس دینار پر، ایک مہینے کے عودے پر، پھر ساٹھ دینار کو چھ مہینے کے یا برس کے عودے پو خرید لے، تو درست نہیں، کیونکہ اس صورت میں پہلے خریدار کو سو دینار مفت مل گئے چھ مہینے یا برس بھر کے بعد۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1303B5]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1303B6
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 1»

2. بَابُ مَا جَاءَ فِي مَالِ الْمَمْلُوكِ إِذَا بِيعِ
2. جب غلام یا لونڈی بکے تو اس کا مال کس کو ملے
حدیث نمبر: 1304
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ، فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَهُ الْمُبْتَاعُ" .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص غلام کو بیچے اور اسکے پاس مال ہو تو وہ مال بائع کو ملے گا۔ مگر جب خریدار شرط کر لے کہ وہ مال میں لوں گا۔
[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1304]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2379، و أبو داود فى «سننه» برقم: 3434، 3433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1244، والنسائی فى «الكبريٰ» برقم: 4978، 4989، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 2»

حدیث نمبر: 1304B1
قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا: أَنَّ الْمُبْتَاعَ إِنِ اشْتَرَطَ مَالَ الْعَبْدِ، فَهُوَ لَهُ، نَقْدًا كَانَ أَوْ دَيْنًا، أَوْ عَرْضًا يُعْلَمُ أَوْ لَا يُعْلَمُ، وَإِنْ كَانَ لِلْعَبْدِ مِنَ الْمَالِ أَكْثَرُ مِمَّا اشْتَرَى بِهِ، كَانَ ثَمَنُهُ نَقْدًا أَوْ دَيْنًا أَوْ عَرْضًا، وَذَلِكَ أَنَّ مَالَ الْعَبْدِ لَيْسَ عَلَى سَيِّدِهِ فِيهِ زَكَاةٌ. وَإِنْ كَانَتْ لِلْعَبْدِ جَارِيَةٌ اسْتَحَلَّ فَرْجَهَا بِمِلْكِهِ إِيَّاهَا، وَإِنْ عَتَقَ الْعَبْدُ، أَوْ كَاتَبَ تَبِعَهُ مَالُهُ، وَإِنْ أَفْلَسَ أَخَذَ الْغُرَمَاءُ مَالَهُ، وَلَمْ يُتَّبَعْ سَيِّدُهُ بِشَيْءٍ مِنْ دَيْنِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کر لے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا، نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو، معلوم ہو یا نہ معلوم ہو، اگرچہ وہ مال اس زرِ ثمن سے زیادہ ہو جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے، کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰة نہیں ہے، وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا، اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہوگی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہو جائے گا، اور اگر یہ غلام آزاد ہو جاتا یا مکاتب، تو اس کا مال اسی کو ملتا، اگر مفلس ہو جاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا، اس کے مولیٰ سے مؤاخذہ نہ ہوتا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1304B1]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 2»

3. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعُهْدَةِ فِي الرَّقِيقِ
3. غلام یا لونڈی کی بیع میں بائع سے کب تک مواخذہ ہو سکتا ہے
حدیث نمبر: 1305
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، أَنَّ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ ، وَهِشَامَ بْنَ إِسْمَاعِيل ، كَانَا يَذْكُرَانِ فِي خُطْبَتِهِمَا عُهْدَةَ الرَّقِيقِ: " فِي الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ، مِنْ حِينِ يُشْتَرَى الْعَبْدُ أَوِ الْوَلِيدَةُ، وَعُهْدَةَ السَّنَةِ" .
حضرت عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل دونوں نے خطبے میں بیان کیا کہ غلام اور لونڈی کے عیب کی جواب دہی بائع پر تین روز تک ہے خریدنے کے وقت سے، اور ایک جواب دہی سال بھر تک ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ غلام اور لونڈی کو جو عارضہ لاحق ہو تین دن کے اندر وہ بائع کی طرف سے سمجھا جائے گا، اور مشتری کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہوگا، اور اگر جنون، یا جذام، یا برص نکلے تو ایک برس کے اندر پھیر دینے کا اختیار ہوگا، بعد ایک سال کے پھر بائع سب باتوں سے بری ہو جائے گا اس کو کسی عیب کی جواب دہی لازم نہ ہوگی، اگر کسی نے وارثوں میں سے یا اور لوگوں میں سے ایک غلام یا لونڈی کو بیچا اس شرط سے کہ بائع عیب کی جواب دہی سے بری ہے، تو پھر بائع پر جواب دہی لازم نہ ہوگی، البتہ اگر جان بوجھ کر اس نے کوئی عیب چھپایا ہوگا تو جواب دہی اس پر لازم ہوگی، اور مشتری کو پھیر دینے کا اختیار ہوگا۔ یہ جواب دہی خاص غلام یا لونڈی میں ہے اور چیزوں میں نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1305]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 36318، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 3»


1    2    3    4    5    Next