امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور بولا: میں نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا تھا، اس نے اپنے آپ کو تین طلاق دے لی، اب کیا کہتے ہو؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ طلاق پڑ گئی۔ وہ شخص بولا: ایسا تو مت کرو۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے کیا کیا، تو نے اپنے آپ کیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1141]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11909، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 10»
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جب مرد اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے، تو جب بھی عورت طلاق چاہے اپنے اوپر ڈال لے، مگر جب خاوند انکار کرے اور کہے: میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا، اور حلف کرے تو اس عورت کا مستحق ہو گا جب تک وہ عدت میں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1142]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15042، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4446، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1619، 1620، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11905، 11906، 11909، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18384، 18388، والشافعي فى «الاُم» برقم: 1620، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 11»
سیدنا خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے باپ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے، اتنے میں محمد بن ابی عتیق روتے ہوئے آئے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیوں؟ انہوں نے کہا: میں نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا تھا، اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے کیوں اختیار دیا؟ انہوں نے کہا: تقدیر میں یوں ہی تھا۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو چاہے تو رجعت کر لے، کیونکہ ایک طلاق پڑی ہے، ابھی تو اس کا مالک ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1143]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15039، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4445، والشافعي فى «الاُم» برقم: 244/7-254، والشافعي فى «المسنده» برقم: 80/2، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 12»
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص ثقفی نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا، اس نے اپنے تئیں ایک طلاق دی، یہ چپ ہو رہا، پھر اس نے دوسری طلاق دی، اس نے کہا: تیرے منہ میں پتھر، اس نے تیسری طلاق دی، اس نے کہا: تیرے منہ میں پتھر، پھر دونوں لڑتے ہوئے مروان کے پاس آئے، مروان نے اس بات کی قسم لی کہ میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا، اس کے بعد وہ عورت اس کے حوالہ کر دی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: عبدالرحمٰن کہتے تھے کہ قاسم بن محمد اس فیصلہ کو پسند کرتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1144]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کا پیغام بھیجا قریبہ بنت ابی امیہ کے پاس، ان کے لوگوں نے ان کا سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کر دیا، اس کے بعد لڑائی ہوئی، ان لوگوں نے کہا: یہ نکاح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کروایا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے کہا۔ سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے اختیار دے دیا، قریبہ نے اپنے خاوند کو اختیار کیا، اس کو طلاق نہ سمجھا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1145]
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن (اپنی بھتیجی) کا منذر بن زبیر سے نکاح کیا، اور عبدالرحمٰن جو کہ لڑکی کے باپ تھے شام کو گئے ہوئے تھے۔ جب عبدالرحمٰن آئے تو انہوں نے کہا: کیا مجھ ہی سے ایسا کرنا تھا اور میرے اوپر جلدی کرنا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے منذر بن زبیر سے بیان کیا۔ منذر نے کہا: عبدالرحمٰن کو اختیار ہے۔ عبدالرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: جس کام کو تم کر چکیں اس کام کو میں توڑنے والا نہیں، پھر رہیں حضرت حفصہ منذر کے پاس اور اس اختیار کو طلاق نہ سمجھا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1146]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13696، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4067، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1662، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11895، 11947، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 15»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا: ایک شخص اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے، مگر عورت اس کو قبول نہ کرے، نہ اپنے تئیں طلاق دے؟ انہوں نے کہا: طلاق نہ پڑے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1147]
سعید بن مسیّب نے کہا: جب مرد اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے، مگر عورت خاوند سے جدا ہونا قبول نہ کرے، اسی کے پاس رہنا چاہے، تو طلاق نہ ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1148]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11903، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18097، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 16ق»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس مجلس میں خاوند عورت کو طلاق کا اختیار دے، اسی مجلس میں عورت کو اختیار ہوگا، اگر وہ مجلس برخواست ہوئی اور عورت نے طلاق نہ لی، تو پھر اختیار نہ رہے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1148B1]