الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث (1852)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے بیان میں
حدیث نمبر: 1238
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ " أَنَّهُ كَانَ يَعْزِلُ"
عامر بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ اپنے والد(سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عزل کرلیا کرتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1238]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14317، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2235، 2236، 2242، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12559، 12565، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16841، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 96»

حدیث نمبر: 1239
مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنِ ابْنِ أَفْلَحَ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِأَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ كَانَ يَعْزِلُ.
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ام ولد سے روایت ہے کہ وہ (سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ) عزل کرلیتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1239]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14318، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16849، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12573، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 97»

حدیث نمبر: 1240
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ أَفْلَحَ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ ، لِأَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ ،" أَنَّهُ كَانَ يَعْزِلُ" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ " أَنَّهُ كَانَ لَا يَعْزِلُ، وَكَانَ يَكْرَهُ الْعَزْلَ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عزل نہیں کرتے تھے اور مکروہ جانتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1240]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14329، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2232، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12577، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 98»

حدیث نمبر: 1241
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرِو بْنِ غَزِيَّةَ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا عِنْدَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَجَاءَهُ ابْنُ قَهْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، إِنَّ عِنْدِي جَوَارِيَ لِي لَيْسَ نِسَائِي اللَّاتِي أُكِنُّ بِأَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْهُنَّ، وَلَيْسَ كُلُّهُنَّ يُعْجِبُنِي أَنْ تَحْمِلَ مِنِّي، أَفَأَعْزِلُ؟ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ : أَفْتِهِ يَا حَجَّاجُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ، إِنَّمَا نَجْلِسُ عِنْدَكَ لِنَتَعَلَّمَ مِنْكَ، قَالَ: أَفْتِهِ. قَالَ: فَقُلْتُ: " هُوَ حَرْثُكَ، إِنْ شِئْتَ سَقَيْتَهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَعْطَشْتَهُ" . قَالَ: وَكُنْتُ أَسْمَعُ ذَلِكَ مِنْ زَيْدٍ، فَقَالَ زَيْدٌ: صَدَقَ
حضرت حجاج بن عمرو بن غزیہ زید بن ثابت کے پاس بیٹھے تھے، اتنے میں ابن قہد ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا اور کہا: اے ابوسعید! (کنیت ہے زید بن ثابت کی) میرے پاس چند لونڈیاں ہیں جو میری بیبیوں سے بہتر ہیں، مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ سب حاملہ ہو جائیں، کیا میں اس سے عزل کروں؟ زید نے حجاج سے کہا: مسئلہ بتاؤ۔ حجاج نے کہا: اللہ تمہیں بخشے، ہم تو تمہارے پاس علم سیکھنے کو آتے ہیں۔ زید نے کہا: بتاؤ۔ جب میں نے کہا: وہ کھیتیاں ہیں تیری۔ تیرا جی چاہے ان میں پانی پہنچا یا جی چاہے سوکھا رکھ۔ میں ایسا ہی سنا کرتا تھا زید سے۔ زید نے کہا: سچ بولا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1241]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14364، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12555، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2232، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 99»

حدیث نمبر: 1242
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ ذَفِيفٌ ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْعَزْلِ، فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ، فَقَالَ:" أَخْبِرِيهِمْ"، فَكَأَنَّهَا اسْتَحْيَتْ، فَقَالَ:" هُوَ ذَلِكَ أَمَّا أَنَا فَأَفْعَلُهُ" يَعْنِي أَنَّهُ يَعْزِلُ . قَالَ مَالِكٌ: لَا يَعْزِلُ الرَّجُلُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا، وَلَا بَأْسَ أَنْ يَعْزِلَ عَنْ أَمَتِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهَا، وَمَنْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةُ قَوْمٍ فَلَا يَعْزِلُ إِلَّا بِإِذْنِهِمْ
ذفیف سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا: عزل کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے اپنی لونڈی کو بلا کر کہا: تو ان کو بتا دے، اس نے شرم کی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ کہا: دیکھ لو، ایسا ہی حکم ہے، میں تو عزل کیا کرتا ہوں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: آزاد عورت سے عزل کرنا بغیر اس کی اجازت کے درست نہیں، اور اپنی لونڈی سے بغیر اس کی اجازت کے درست ہے، اور پرائی لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت لینا ضروری ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1242]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12556، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2233، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 100»

35. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْإِحْدَادِ
35. سو گ کا بیان
حدیث نمبر: 1243
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے تین حدیثیں ان سے بیان کیں۔ ایک تو یہ کہ میں سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی، جب ان کے باپ ابوسفیان بن حرب مرے تھے، تو سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگوائی جس میں زردی ملی ہوئی تھی، وہ خوشبو ایک لونڈی کے لگا کر اپنے کلّوں پر لگا لی اور کہا کہ اللہ کی قسم! مجھےخوشبو کی احتیاج نہیں، مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں کہ کسی مردے پر تین دن تک زیادہ سوگ کرے، سوا خاوند کے کہ اس پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔
دوسری حدیث یہ ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: میں سیدہ زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ جب ان کے بھائی مر گئے تھے، انہوں نے خوشبو منگا کر لگائی اور کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر، اس کو درست نہیں کہ سوگ کرے کسی مردے پر تین روز سے زیادہ، مگر خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔
تیسری حدیث یہ ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اپنی ماں سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی، انہوں نے کہا: ایک عورت آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اورکہنے لگی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیٹی کا خاوند مر گیا اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں، اگر فرمائیں تو سرمہ لگا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: نہیں نہیں۔ دو بار یا تین بار، پھر فرمایا: بلکہ چار مہینے دس دن تک پرہیز کرنا ضروری ہے، اور جاہلیت میں ایک سال تک پرہیز کرتے تھے، جب سال ختم ہوتا تو اونٹ کی مینگنی پھینکتے تھے۔ حمید نے کہا: میں نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اونٹ کی مینگنی پھینکنے سے کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: زمانۂ جاہلیت میں جب عورت کا خاوند مرجاتا تو ایک کھنڈر میں چلے جاتے اور برے سے برے کپڑے پہن لیتے، پھر ایک سال تک خوشبو وغیرہ کچھ نہ لگاتے، بعد سال کے ایک جانور لاتے گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ، اس کو اپنے بدن پر ملتے، اکثر وہ مرجاتا، بعد اس کے باہر نکلتے تو ایک اونٹ کی مینگنی اس کو دیتے، اس کو پھینک کر پھر اختیار ہوتا۔ چاہے خوشبو لگائے یا اور کوئی کام کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1243]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1280، 1281، 5334، 5335، 5336، 5338، 5339، 5345، 5706، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1486، 1487، 1489، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4304، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3498، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2299، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1195، 1196، 1197، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2330، 2331، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2084، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2133، 2136، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15491، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27144، والحميدي فى «مسنده» برقم: 306، 308، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 101»

حدیث نمبر: 1244
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، وَحَفْصَةَ زَوْجَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ"
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُم المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر، اس کو درست نہیں سوگ کرنا کسی مردے پر تین راتوں سے زیادہ مگر خاوند پر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1244]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4302، 4306، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3533، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5666، 5667، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2304، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2086، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15551، وأحمد فى «مسنده» برقم: 26153، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 104»

حدیث نمبر: 1245
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ لِامْرَأَةٍ حَادٍّ عَلَى زَوْجِهَا اشْتَكَتْ عَيْنَيْهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ مِنْهَا: " اكْتَحِلِي بِكُحْلِ الْجِلَاءِ بِاللَّيْلِ، وَامْسَحِيهِ بِالنَّهَارِ"
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت سے جو سوگ میں تھی اپنے خاوند کے، اور اس کی آنکھ دکھتی تھی، کہا: رات کو وہ سرمہ لگا لے جس سے آنکھ روشن ہو اور دن کو پونچھ ڈالے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1245]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2305، والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 3567، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 105»

حدیث نمبر: 1246
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُمَا كَانَا يَقُولَانِ فِي الْمَرْأَةِ يُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا:" إِنَّهَا إِذَا خَشِيَتْ عَلَى بَصَرِهَا مِنْ رَمَدٍ، أَوْ شَكْوٍ أَصَابَهَا، إِنَّهَا تَكْتَحِلُ وَتَتَدَاوَى بِدَوَاءٍ أَوْ كُحْلٍ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ طِيبٌ" . قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا كَانَتِ الضَّرُورَةُ، فَإِنَّ دِينَ اللَّهِ يُسْرٌ
حضرت سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار کہتے تھے: جس عورت کا خاوند مر جائے اور اس کو آنکھ کے آشوب یا کسی اور دُکھ کی تکلیف ہو، وہ سرمہ لگائے اور دوا کرے اگرچہ اس میں خوشبو ہو۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جب ضرورت ہو تو اللہ جل جلالہُ کا دین آسان ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1246]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12137، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18955، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 106»

حدیث نمبر: 1247
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ،" أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ اشْتَكَتْ عَيْنَيْهَا وَهِيَ حَادٌّ عَلَى زَوْجِهَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَلَمْ تَكْتَحِلْ حَتَّى كَادَتْ عَيْنَاهَا تَرْمَصَانِ" . قَالَ مَالِك: تَدَّهِنُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا بِالزَّيْتِ وَالشِّيرِقِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، إِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ طِيبٌ. قَالَ مَالِك: وَلَا تَلْبَسُ الْمَرْأَةُ الْحَادُّ عَلَى زَوْجِهَا شَيْئًا مِنَ الْحَلْيِ، خَاتَمًا، وَلَا خَلْخَالًا، وَلَا غَيْرَ ذَلِكَ مِنَ الْحَلْيِ، وَلَا تَلْبَسُ شَيْئًا مِنَ الْعَصْبِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَصْبًا غَلِيظًا، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِشَيْءٍ مِنَ الصِّبْغِ إِلَّا بِالسَّوَادِ، وَلَا تَمْتَشِطُ إِلَّا بِالسِّدْرِ، وَمَا أَشْبَهَهُ مِمَّا لَا يَخْتَمِرُ فِي رَأْسِهَا
حضرت صفیہ بنت ابوعبید اپنے خاوند یعنی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سوگ میں تھیں، انہوں نے سرمہ نہ لگایا اور ان کی آنکھیں دکھتی تھیں یہاں تک کہ چیپڑ آنے لگا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو عورت سوگ میں ہو اپنے خاوند کے، وہ زیور قسم سے کچھ نہ پہنے، نہ انگوٹھی، نہ پازیب، نہ اور زیور، نہ یمن کا کپڑا مگر جب موٹا اور سخت ہو، نہ رنگا ہوا کپڑا مگر سیاہ، نہ کنگھی کرے، نہ کھلی ڈالے، مگر بیری وغیرہ کے پتوں سے بالوں کو دھو سکتی ہے، یا اور کسی چیز سے جس میں خوشبو نہ ہو۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس عورت کا خاوند مر جائے وہ تیل زیتون کا یا تل کا جس میں خوشبو نہ ہو لگائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1247]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12125، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18963، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2138، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 107»


Previous    13    14    15    16    17    18    Next