امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مطلب اس کا یہ ہے کہ جب مرد عورت کے گھر میں رہے، پھر اختلاف ہو۔ عورت کہے مجھ سے جماع کیا ہے، اور مرد کہے نہیں کیا ہے، تو مرد کی بات کا اعتبار ہوگا۔ اور جو عورت مرد کے گھر میں رہے، پھر اختلاف ہو تو عورت کی بات کا اعتبار ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1086B1]
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسا کام نہ کروں گا جس کے سبب سے تو اپنے لوگوں میں ذلیل ہو، اگر تجھ کو منظور ہے تو سات دن تک تیرے پاس رہوں گا، پھر سات سات دن ہر ایک بی بی کے پاس رہوں گا، اور اگر تو چاہے تو تین دن تیرے پاس رہوں اور ایک ایک دن سب کے پاس رہ کر آؤں۔“ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تین دن رہیے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1087]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1460، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2122، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1917، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 776، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14805، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3732، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10645، 10646، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4332، 4333، والطبراني فى «الكبير» 591، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 14»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ باکرہ عورت کے سات دن ہیں اور ثیبہ کے تین دن۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1088]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5213، 5214، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1461، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4208، 4209، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2124، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1139، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2255، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1916، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 778، 779، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14810، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 15»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس عورت سے اس نے نکاح کیا اگر اس کے سوا اور بھی اس کی کئی عورتیں ہوں تو بعد ان دنوں کے پھر سب کے پاس برابر رہا کرے، مگر یہ دن نئی عورت کے حساب میں مجرانہ ہوں گے، اس لیے کہ یہ نئی عورت کا حق ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1088B1]
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سعید بن مسیّب سے سوال ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے شرط کرے کہ میرے شہر سے مجھ کو نہ نکالنا؟ سعید بن مسیّب نے جواب دیا کہ اس کے باوجود نکال سکتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر مرد عورت سے نکاح کرتے وقت اس امر کی شرط کرے کہ میں تیرے اوپر دوسرا نکاح نہ کروں گا، یا لونڈی نہ رکھوں گا، تو اس شرط کو پورا کرنا ضروری نہیں، البتہ اگر اس نے طلاق یا عتاق کو دوسرے نکاح پر معلق کر دیا ہو تو دوسرے نکاح سے طلاق یا عتاق ضروری ہو جائے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1089]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، و أخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16451، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14441، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 16»
حضرت زبیر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رفاعہ بن سموال قرظی نے اپنی بی بی تمیمہ بنت وہب کو رسول اللہ کے زمانے میں تین طلاقیں دیں، تو انہوں نے نکاح کیا عبدالرحمٰن بن زبیر سے۔ مگر عبدالرحمٰن اس پر قادر نہ ہوئے اور جماع نہ کر سکے، اس واسطے عبدالرحمٰن نے اس کو چھوڑ دیا، تب رفاعہ جو شوہر اول تھے انہوں نے پھر نکاح کرنا چاہا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا اور رفاعہ سے فرمایا: ”وہ عورت تجھ کو حلال نہیں جب تک دوسرے شخص سے جماع نہ کرائے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1090]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4121، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15196، 15197، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4511، والطبراني فى "الكبير"، 4565، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 17»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال ہوا کہ ایک شخص اپنی عورت کو تین طلاق دے، بعد اس کے اس سے دوسرا شخص نکاح کرے، اور پھر طلاق دے دے جماع کرنے سے پہلے، اب پہلا شوہر اس سے نکاح کر سکتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں کر سکتا جب تک دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1091]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وانظر للحديث مرفوع: أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2639، 5260، 5261، 5265، 5317، 5792، 5825، 6084، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1433، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4119، 4120، 4122، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3441، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5509، 5570، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2309، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1118، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2313، 2314، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1932، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1985، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14346، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24692، والحميدي فى «مسنده» برقم: 228، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4423، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 18»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیں، پھر اس سے دوسرے شخص نے نکاح کیا اور وہ جماع کرنے سے پہلے مر گیا، کیا پہلے شوہر کو اس سے نکاح کر لینا درست ہے؟ جواب دیا: نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1092]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص حلالہ کی نیت سے نکاح کرے اس کا نکاح فاسد ہے، پھر نئے سرے سے نکاح کرے، اگر جماع کر چکا ہے تو مہر اس پر واجب ہو گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1092]