سعید بن مسیّب نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کو جُنون یا جذام یا برص ہو اور خاوند نہ جان کر اس سے جماع کرے، اس عورت کو خاوند پورا مہرے دے، اور اس کے ولی سے پھیر لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1082]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14222، 14252، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 2509، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4250، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 818، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3672، 3673، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10679، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16550، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 9»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ولی کو مہر اس صورت میں واپس دینا ہوگا جب وہ عورت کا باپ یا بھائی یا ایسا قریبی ہو کہ عورت کا حال جانتا ہو، اور جو ولی محرم نہ ہو جیسے چچا کا بیٹا، یا مولیٰ، یا اور کوئی کنبے والا ہو جس کو عورت کا حال معلوم نہ ہو تو اس پر مہر پھیرنا لازم نہ ہوگا، بلکہ اس عورت سے مہر پھیر لیا جائے گا، صرف اس قدر چھوڑ دیا جائے گا جس سے اس کی فرج حلال ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1082B1]
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بیٹی جن کی ماں سیدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے کے نکاح میں آئیں، وہ مر گئے مگر انہوں نے اس سے صحبت نہیں کی، نہ ان کا مہر مقرر ہوا تھا، تو ان کی ماں نے مہر مانگا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مہر کا ان کو استحقاق نہیں، اگر ہوتا تو ہم نہ رکھتے، نہ ظلم کرتے۔ ان کی ماں نے نہ مانا، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کہنے پر رکھا، سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو مہر نہیں ملے گا، البتہ ترکہ ملے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1083]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14418، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4308، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 925، 926، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10889، 10890، 10891، 11739، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17106، 17403، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 10»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے عامل کو لکھا کہ نکاح کر دینے والا باپ ہو یا کوئی اور، اگر خاوند سے کچھ تحفہ یا ہدیہ لینے کی شرط کرے تو وہ عورت کو ملے گا، اگر طلب کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس عورت کا نکاح اس کا باپ کر دے اور اس کے مہر میں کچھ حبا کی شرط کرے، اگر وہ شرط ایسی ہو جس کے عوض میں نکاح ہوا ہے تو وہ حبا اس کی بیٹی کو ملے گا اگر چاہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر خاوند نے قبل صحبت کے بی بی کو چھوڑ دیا تو خاوند حبا میں سے نصف پھیر لےگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1084]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10742، 10745، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16448، 16457، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 11»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص اپنی نا بالغ لڑکی کا نکاح کرے اور اس لڑکے کا کوئی ذاتی مال نہ ہو تو مہر اس کے باپ پر واجب ہوگا، اور اگر اس لڑکے کا ذاتی مال ہو تو اس کے مال میں سے دلایا جائے گا، مگر جس صورت میں باپ مہر کو اپنے ذمے کر لے، اور یہ نکاح لڑکی پر لازم ہوگا جب وہ نابالغ ہو، اور اپنے باپ کی ولایت میں ہو [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1084B1]
کہا مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص اپنی بی بی کو قبل صحبت کے طلاق دے، اور بی بی اس کی بکر ہو، تو اس کا باپ خاوند کو نصف مہر معاف کردے تو درست ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر طلاق دو تم اپنی عورتوں کو قبل جماع کے، اور مہر مقرر کر چکے ہو، تم کو آدھا مہر دینا ہوگا۔ مگر جس صورت میں کہ عورتیں اپنا مہر معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے اختیار میں نکاح کا عقدہ ہے۔“ وہ شخص باپ ہے اپنی بکر بیٹی کا اور مالک اپنی لونڈی کا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1084B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے ایسا ہی سنا اہلِ علم سے اس باب میں، میرے نزدیک ایسا ہی حکم ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1084B3]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر یہودی کا نکاح یہودیہ سے ہو یا نصرانی کا نصرانیہ سے، پھر قبل صحبت کے وہ یہودیہ یا نصرانیہ مسلمان ہو جائے، تو اس کو مہر نہ ملےگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرے نزدیک ربع دینار سے کم مہر نہیں ہو سکتا، اور نہ ربع دینار کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1084B4]
سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکم کیا کہ جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور خلوتِ صحیحہ ہو جائے تو مہر واجب ہو گیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1085]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14479، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4328، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10869، 10870، 10871، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16690، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3818، 3820، 3821، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 12»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سعید بن مسیّب کہتے تھے کہ جب مرد عورت کے گھر میں جائے تو مرد کی تصدیق ہوگی، اور جو عورت مرد کے گھر میں جائے تو عورت کی تصدیق ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النِّكَاحِ/حدیث: 1086]