الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث (1852)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے بیان میں
حدیث نمبر: 975B8
قَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ الرَّجُلِ يَخْرُجُ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ فِي الْمُفَادَاةِ، أَوْ فِي الِتِجَارَةٍ، فَيَشْتَرِيَ الْحُرَّ، أَوِ الْعَبْدَ، أَوْ يُوهَبَانِ لَهُ، فَقَالَ: أَمَّا الْحُرُّ فَإِنَّ مَا اشْتَرَاهُ بِهِ دَيْنٌ عَلَيْهِ، وَلَا يُسْتَرَقُّ وَإِنْ كَانَ وُهِبَ لَهُ فَهُوَ حُرٌّ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ أَعْطَى فِيهِ شَيْئًا مُكَافَأَةً فَهُوَ دَيْنٌ عَلَى الْحُرِّ، بِمَنْزِلَةِ مَا اشْتُرِيَ بِهِ، وَأَمَّا الْعَبْدُ فَإِنَّ سَيِّدَهُ الْأَوَّلَ مُخَيَّرٌ فِيهِ، إِنْ شَاءَ أَنْ يَأْخُذَهُ، وَيَدْفَعَ إِلَى الَّذِي اشْتَرَاهُ ثَمَنَهُ، فَذَلِكَ لَهُ، وَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يُسْلِمَهُ أَسْلَمَهُ، وَإِنْ كَانَ وُهِبَ لَهُ فَسَيِّدُهُ الْأَوَّلُ أَحَقُّ بِهِ، وَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ أَعْطَى فِيهِ شَيْئًا مُكَافَأَةً، فَيَكُونُ مَا أَعْطَى فِيهِ غُرْمًا عَلَى سَيِّدِهِ، إِنْ أَحَبَّ أَنْ يَفْتَدِيَهُ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص گیا کفار کے ملک میں مسلمانوں کو چھڑانے یا تجارت کے واسطے، وہاں اس نے آزاد اور غلام دونوں کو خریدا، یا کفار نے اس کو ہبہ کردیا؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اگر اس شخص نے آزاد کو خریدا تو جس قدر داموں کے بدلے میں خریدا وہ قرض سمجھا جائے گا اور وہ غلام نہ بنے گا، اور وہ جو ہبہ میں آیا تو وہ آزاد رہے گا، اس کو کچھ دینا نہ ہو گا، مگر اس صورت میں کہ ہبہ کے عوض میں اس نے کچھ خرچ کیا ہو اس قدر اس کے ذمہ پر قرض ہوگا، گویا اس کے بدلے میں خرید لیا، اور جو اس شخص نے غلام کو خریدا تو اس سے پہلے مالک کو اختیار ہے کہ جن داموں کو اس نے خریدا ہے وہ دام دے کر غلام کو لے لے یا نہ لے اسی کے پاس رہنے دے، اور جو ہبہ میں آیا تو پہلا مالک اس غلام کو مفت لے لے، البتہ اگر ہبہ کے عوض میں خرچ کیا ہو تو پہلے مالک کو ضروری ہے کہ اگر چاہے اس قدر خرچ ادا کر کے وہ غلام لے لے یا نہ لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 975B8]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 17»

10. بَابُ مَا جَاءَ فِي السَّلَبِ فِي النَّفَلِ
10. ہتھیاروں کو نفل میں دینے کا بیان
حدیث نمبر: 976
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَاسْتَدَرْتُ لَهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً، وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي. قَالَ: فَلَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ؟ فَقَالَ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ"، قَالَ: فَقُمْتُ، ثُمَّ قُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ"، قَالَ: فَقُمْتُ، ثُمَّ قُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟"، قَالَ: فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَسَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي، فَأَرْضِهِ عَنْهُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا هَاءَ اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ، عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ"، فَأَعْطَانِيهِ، فَبِعْتُ الدِّرْعَ، فَاشْتَرَيْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگِ حنین میں، جب ملے ہم کافروں سے تو مسلمانوں میں گڑبڑ مچی۔ میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کیا ہے، تو میں نے پیچھے سے آن کر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری، وہ میری طرف دوڑا اور مجھے آن کر ایسا دبایا گویا موت کا مزہ چکھایا، پھر وہ خود مر گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے کہا: آج لوگوں کو کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا ایسا ہی حکم ہوا، پھر مسلمان لوٹے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: جو کسی شخص کو مارے تو اس کا سامان اس کو ملے گا جب اس پر وہ گواہ رکھتا ہو۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب میں نے یہ سنا، اُٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے یہ خیال کیا کہ گواہ کون ہے؟ تو میں بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کو مارے گا اس کا سامان اسی کو ملے گا بشرطیکہ وہ گواہ رکھتا ہو۔ تو میں اُٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے یہ خیال کیا کہ گواہ کہاں ہیں؟ پھر بیٹھ رہا، پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا، میں اُٹھ کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا تجھ کو اے ابوقتادہ؟ میں نے سارا قصہ کہہ سنایا، اتنے میں ایک شخص بولا: سچ کہا یا رسول اللہ! اور سامان اس کافر کا میرے پاس ہے، تو وہ سامان مجھے معاف کرا دیجیے ان سے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! ایسا کبھی نہ ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسا قصد نہ کریں گے کہ ایک شیر اللہ کے شیروں میں سے اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تجھے مل جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں، وہ سامان ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو دیدے۔ اس نے مجھے دیدیا، میں نے زرہ بیچ کر ایک باغ خریدا نبی سلمہ کے محلّہ میں اور یہ پہلا مال ہے جو حاصل کیا میں نے اسلام میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 976]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2100، 3142، 4321، 7170، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1751، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4805، 4837، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2717، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1562، 1562 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2528، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2837، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2695، 2696، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12886، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22954، 22963، والحميدي فى «مسنده» برقم: 427، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9476، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1195، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 18»

حدیث نمبر: 977
وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا، يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، عَنِ الْأَنْفَالِ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " الْفَرَسُ مِنَ النَّفَلِ، وَالسَّلَبُ مِنَ النَّفَلِ"، قَالَ: ثُمَّ عَادَ الرَّجُلُ لِمَسْأَلَتِهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ذَلِكَ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ الرَّجُلُ: الْأَنْفَالُ الَّتِي قَالَ اللَّهُ فِي كِتَابِه مَا هِيَ؟ قَالَ الْقَاسِمُ: فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ حَتَّى كَادَ أَنْ يُحْرِجَهُ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" أَتَدْرُونَ مَا مَثَلُ هَذَا؟ مَثَلُ صَبِيغٍ الَّذِي ضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ" .
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سنا میں نے ایک شخص کو، پوچھتا تھا سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نفل کے معنی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ گھوڑا اور ہتھیار نفل میں داخل ہیں۔ پھر اس شخص نے یہی پوچھا، پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی جواب دیا، پھر اس شخص نے کہا: میں وہ انفال پوچھتا ہوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ حضرت قاسم کہتے ہیں کہ وہ برابر پوچھے گیا یہاں تک کہ تنگ ہونے لگے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور کہا انہوں نے: تم جانتے ہو اس شخص کی مثال صبیغ کی سی ہے جس کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مارا تھا۔
[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 977]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12916، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33768، 33962، وأخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5203، 5204، 5205، «الأوسط» لابن المنذر برقم: 6516، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 19»

حدیث نمبر: 977B1
قَالَ: وَسُئِلَ مَالِك، عَمَّنْ قَتَلَ قَتِيلًا مِنَ الْعَدُوِّ، أَيَكُونُ لَهُ سَلَبُهُ بِغَيْرِ إِذْنِ الْإِمَامِ؟ قَالَ: لَا يَكُونُ ذَلِكَ لِأَحَدٍ بِغَيْرِ إِذْنِ الْإِمَامِ، وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ مِنَ الْإِمَامِ إِلَّا عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ، وَلَمْ يَبْلُغْنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَهُ سَلَبُهُ" إِلَّا يَوْمَ حُنَيْنٍ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ جو شخص کسی کافر کو مار ڈالے، کیا اس کا اسباب اس شخص کو ملے گا بغیر حکم امام کے؟ انہوں نے کہا کہ بغیر حکم امام کے نہ ملے گا۔ بلکہ امام کو اختیار ہے کہ اگر اس کی رائے میں آئے تو ایسا حکم د ے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجز جنگِ حنین کے مجھے نہیں پہنچا کہ اور کسی جنگ میں ایسا حکم دیا ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 977B1]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 19»

11. بَابُ مَا جَاءَ فِي إِعْطَاءِ النَّفَلِ مِنَ الْخُمُسِ
11. نفل خمس میں سے دئیے جانے کا بیان
حدیث نمبر: 978
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ النَّاسُ يُعْطَوْنَ النَّفَلَ مِنَ الْخُمُسِ" .
حضرت سعید بن مسیّب نے کہا: لوگ نفل کو خمس میں سے دیا کرتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: یہ میرے نزدیک اس باب میں جو میں نے سنا، مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔
[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 978]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12812، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3958، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2706، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9341، 9342، 9344، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33914، 33970، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 20»

حدیث نمبر: 978B1
قَالَ مَالِك: وَذَلِكَ أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ. وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ النَّفَلِ، هَلْ يَكُونُ فِي أَوَّلِ مَغْنَمٍ؟ قَالَ: ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ مِنَ الْإِمَامِ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا فِي ذَلِكَ أَمْرٌ مَعْرُوفٌ مَوْثُوقٌ إِلَّا اجْتِهَادُ السُّلْطَانِ، وَلَمْ يَبْلُغْنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفَّلَ فِي مَغَازِيهِ كُلِّهَا"، وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّهُ نَفَّلَ فِي بَعْضِهَا يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَإِنَّمَا ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ مِنَ الْإِمَامِ فِي أَوَّلِ مَغْنَمٍ وَفِيمَا بَعْدَهُ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا نفل پہلے غنیمت میں ہوتا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ امام کی رائے پر موقوف ہے، اس میں کوئی قاعدہ مقرر نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جہاد میں نفل نہیں مقرر کیا بلکہ بعض لڑائیوں میں، جیسے حنین میں، تو یہ امام کی رائے پر موقوف ہے خواہ پہلے غنیمت میں نفل مقرر کرے خواہ بعد اس کے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 978B1]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 20»

12. بَابُ الْقَسْمِ لِلْخَيْلِ فِي الْغَزْو
12. گھوڑے کے حصے کا بیان جہاد میں
حدیث نمبر: 979
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، كَانَ يَقُولُ: " لِلْفَرَسِ سَهْمَانِ وَلِلرَّجُلِ سَهْمٌ" . قَالَ مَالِك: وَلَمْ أَزَلْ أَسْمَعُ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا: گھوڑے کے دو حصے ہیں، اور مرد کا ایک حصہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمیشہ ایسا ہی سنتا ہوا آیا۔
[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 979]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 21»

حدیث نمبر: 979B1
وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ يَحْضُرُ بِأَفْرَاسٍ كَثِيرَةٍ، فَهَلْ يُقْسَمُ لَهَا كُلِّهَا؟ فَقَالَ: لَمْ أَسْمَعْ بِذَلِكَ، وَلَا أَرَى أَنْ يُقْسَمَ إِلَّا لِفَرَسٍ وَاحِدٍ الَّذِي يُقَاتِلُ عَلَيْهِ
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ ایک شخص بہت سے گھوڑے لے کر آیا، تو کیا سب گھوڑوں کو حصہ ملے گا؟ جواب دیا کہ نہیں، صرف اس گھوڑے کو ملے گا جس پر سوار ہو کر لڑتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 979B1]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 21ق»

حدیث نمبر: 979B2
. قَالَ مَالِك: لَا أَرَى الْبَرَاذِينَ، وَالْهُجُنَ إِلَّا مِنَ الْخَيْلِ، لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ: وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً سورة النحل آية 8، وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ سورة الأنفال آية 60 فَأَنَا أَرَى الْبَرَاذِينَ وَالْهُجُنَ مِنَ الْخَيْلِ إِذَا أَجَازَهَا الْوَالِي. وَقَدْ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَسُئِلَ، عَنِ الْبَرَاذِينِ، هَلْ فِيهَا مِنْ صَدَقَةٍ؟ فَقَالَ: " وَهَلْ فِي الْخَيْلِ مِنْ صَدَقَةٍ؟"
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میرے نزدیک ترکی اور مجنس بھی گھوڑوں میں داخل ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ نے فرمایا: پیدا کیا ہم نے گھوڑوں اور خچروں کو اور گدھوں کو تمہارے سوار ہونے کے لیے۔ اور فرمایا الله تعالیٰ نے: تیار کرو واسطے کافروں کے جہاں تک کر سکو سامان لڑائی کا اور بندھے ہوئے گھوڑے، ڈراتے رہو ان سے اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو۔ تو میرے نزدیک ترکی اور مجنس گھوڑوں میں شمار کیے جائیں گے جب حاکم ان کو قبول کر لے۔ حضرت سعید بن مسیّب سے کسی نے پوچھا کہ ترکیوں میں زکوٰة ہے؟ بولے: کہیں گھوڑوں میں بھی زکوٰۃ ہوتی ہے؟ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 979B2]
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 21ق»

13. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْغُلُولِ
13. غنیمت کے مال میں سے چرانے کا بیان
حدیث نمبر: 980
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ صَدَرَ مِنْ حُنَيْنٍ، وَهُوَ يُرِيدُ الْجِعِرَّانَةَ، سَأَلَهُ النَّاسُ: حَتَّى دَنَتْ بِهِ نَاقَتُهُ مِنْ شَجَرَةٍ، فَتَشَبَّكَتْ بِرِدَائِهِ حَتَّى نَزَعَتْهُ عَنْ ظَهْرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي، أَتَخَافُونَ أَنْ لَا أَقْسِمَ بَيْنَكُمْ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ سَمُرَ تِهَامَةَ نَعَمًا، لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا، وَلَا جَبَانًا، وَلَا كَذَّابًا"، فَلَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي النَّاسِ فَقَالَ:" أَدُّوا الْخَيَّاطَ وَالْمِخْيَطَ فَإِنَّ الْغُلُولَ عَارٌ وَنَارٌ، وَشَنَارٌ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: ثُمَّ تَنَاوَلَ مِنَ الْأَرْضِ، وَبَرَةً مِنْ بَعِيرٍ، أَوْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لِي مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ، وَلَا مِثْلُ هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ"
عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹے حنین سے اور قصد رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ کا، مانگنے لگے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، کہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کانٹوں کے درخت کی طرف چلا گیا اور کانٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں اٹک کر چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشتِ مبارک سے اُتر گئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری چادر مجھ کو دیدو، کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نہ بانٹوں گا وہ چیز تم کو جو اللہ نے تم کو دی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر اللہ تم کو جتنے تہامہ کے درخت ہیں اتنے اونٹ دے تو میں بانٹ دوں گا تم کو، پھر نہ پاؤگے مجھ کو بخیل، نہ بودا، نہ جھوٹا۔ پھر جب اُترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کھڑے ہوئے لوگوں میں اور کہا: اگر کسی نے دھاگہ اور سوئی لے لی ہو وہ بھی لاؤ، کیونکہ غنیمت کے مال میں سے چرانا شرم ہے دنیا میں اور آگ ہے اور عیب ہے قیامت کے روز۔ پھر زمین سے ایک بال کا گچھا اٹھایا اونٹ کا یا بکری کا اور فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! جو مال اللہ پاک نے تم کو دیا اس میں سے میرا اتنا بھی نہیں ہے مگر پانچواں حصہ بھی تمہارے ہی واسطے ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 980]
تخریج الحدیث: «مرفوع حسن، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2694، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4144، 4152، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4425، 6482، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2754، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13056، 13299، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6844، 7158، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9498، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38117، والطبراني فى "الكبير"، 5304، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1864، 7376، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 22»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next