الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث (1852)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الزَّكَاةِ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
حدیث نمبر: 668B3
قَالَ مَالِك: وَالدَّلِيلُ عَلَى الدَّيْنِ يَغِيبُ أَعْوَامًا ثُمَّ يُقْتَضَى فَلَا يَكُونُ فِيهِ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، أَنَّ الْعُرُوضَ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لِلتِّجَارَةِ أَعْوَامًا ثُمَّ يَبِيعُهَا فَلَيْسَ عَلَيْهِ فِي أَثْمَانِهَا إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الدَّيْنِ أَوِ الْعُرُوضِ أَنْ يُخْرِجَ زَكَاةَ ذَلِكَ الدَّيْنِ أَوِ الْعُرُوضِ مِنْ مَالٍ سِوَاهُ، وَإِنَّمَا يُخْرِجُ زَكَاةَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْهُ، وَلَا يُخْرِجُ الزَّكَاةَ مِنْ شَيْءٍ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو ہم نے بیان کیا کہ دَین کئی برس تک وصول نہیں ہوتا، پھر وصول ہو تو ایک سال کی زکوٰۃ لازم ہوگی، اس پر دلیل یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس مالِ تجارت برسوں تک رہتا ہے، جب اس کو بیچتا ہے تو اس کے زرِ ثمن پر ایک ہی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس لیے کہ صاحبِ دَین یا صاحبِ مال پر یہ امر لازم نہیں کہ زکوٰۃ اس مال کی یا دَین کی دوسرے مال سے نکالے، بلکہ زکوٰۃ ہر مال کی اسی مال سے نکالی جائے، نہ یہ کہ زکوٰۃ ایک شے کی دوسری شے میں سے دی جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 668B3]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»

حدیث نمبر: 668B4
قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ يَكُونُ عَلَيْهِ دَيْنٌ وَعِنْدَهُ مِنَ الْعُرُوضِ مَا فِيهِ وَفَاءٌ لِمَا عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ، وَيَكُونُ عِنْدَهُ مِنَ النَّاضِّ سِوَى ذَلِكَ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يُزَكِّي مَا بِيَدِهِ مِنْ نَاضٍّ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس حکم میں ہمارے نزدیک اختلاف نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس اسباب اس قدر ہے جو اس کے ادائے دَین کو کافی ہے اور نقد روپیہ اس کے سوا ہے تو وہ نقد روپے کی زکوٰۃ دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 668B4]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»

حدیث نمبر: 668B5
وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنَ الْعُرُوضِ وَالنَّقْدِ إِلَّا وَفَاءُ دَيْنِهِ، فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَهُ مِنَ النَّاضِّ فَضْلٌ عَنْ دَيْنِهِ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَعَلَيْهِ أَنْ يُزَكِّيَهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر نقد اور جنس ملا کر دونوں اس کے قرض کے برابر ہوں تو زکوٰۃ اس پر واجب نہ ہوگی جب تک کہ نقد اس کے دَین سے فاضل نہ ہو اور نصاب نہ ہو۔ جب تک ایسا ہو تو اس کے لیے زکوٰۃ دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 668B5]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»

9. بَابُ زَكَاةِ الْعُرُوضِ
9. اموال تجارت کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر: 669
حَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ رُزَيْقِ بْنِ حَيَّانَ وَكَانَ رُزَيْقِ عَلَى جَوَازِ مِصْرَ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ، وَسُلَيْمَانَ، وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَذَكَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَيْهِ" أَنْ انْظُرْ مَنْ مَرَّ بِكَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَخُذْ مِمَّا ظَهَرَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، مِمَّا يُدِيرُونَ مِنَ التِّجَارَاتِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا، فَمَا نَقَصَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ حَتَّى يَبْلُغَ عِشْرِينَ دِينَارًا، فَإِنْ نَقَصَتْ ثُلُثَ دِينَارٍ فَدَعْهَا، وَلَا تَأْخُذْ مِنْهَا شَيْئًا، وَمَنْ مَرَّ بِكَ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ فَخُذْ مِمَّا يُدِيرُونَ مِنَ التِّجَارَاتِ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا دِينَارًا، فَمَا نَقَصَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ حَتَّى يَبْلُغَ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ، فَإِنْ نَقَصَتْ ثُلُثَ دِينَارٍ فَدَعْهَا، وَلَا تَأْخُذْ مِنْهَا شَيْئًا، وَاكْتُبْ لَهُمْ بِمَا تَأْخُذُ مِنْهُمْ كِتَابًا إِلَى مِثْلِهِ مِنَ الْحَوْلِ"
حضرت زریق بن حیان سے روایت ہے، اور وہ مقرر تھے مصر کے محصول خانہ پر، ولید اور سلیمان بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ان کو: جو شخص گزرے اوپر تیرے مسلمانوں میں سے، تو جو مال اُن کا ظاہر ہو اموالِ تجارت میں سے، تو لے اس میں سے ہر چالیس دینار میں سے ایک دینار، یعنی چالیسواں حصہ، اور جو چالیس دینار سے کم ہو تو اسی حساب سے بیس دینار تک، اگر بیس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم ہو تو اس مال کو چھوڑ دے، اس میں سے کچھ نہ لے، اور جو تیرے اوپر کوئی ذمہ گزرے تو اس کے مالِ تجارت میں سے ہر بیس دینار میں سے ایک دینار لے، جو کم ہو اسی حساب سے دس دینار تک، اگر دس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم ہو تو کچھ نہ لے، اور جو کچھ تو لے اس کی ایک ایک رسید سال تمام کے واسطے لکھ دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 669]
تخریج الحدیث: «مقطوع حسن، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10116، 10123، 19278، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18843، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 288/3، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9971، 10689، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 3065، والشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 46/2، شركة الحروف نمبر: 545، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 20»

حدیث نمبر: 669B1
قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَا يُدَارُ مِنَ الْعُرُوضِ لِلتِّجَارَاتِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَدَّقَ مَالَهُ ثُمَّ اشْتَرَى بِهِ عَرْضًا بَزًّا أَوْ رَقِيقًا أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، ثُمَّ بَاعَهُ قَبْلَ أَنْ يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ، فَإِنَّهُ لَا يُؤَدِّي مِنْ ذَلِكَ الْمَالِ زَكَاةً حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ صَدَّقَهُ، وَأَنَّهُ إِنْ لَمْ يَبِعْ ذَلِكَ الْعَرْضَ سِنِينَ لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ فِي شَيْءٍ، مِنْ ذَلِكَ الْعَرْضِ زَكَاةٌ وَإِنْ طَالَ زَمَانُهُ فَإِذَا بَاعَهُ فَلَيْسَ فِيهِ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ ایک بار جب تاجر نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی پھر اس مال کے عوض میں اسباب، کپڑا یا لونڈی، غلام وغیرہ خرید لیا، پھر ایک سال پورا ہونے کے اوّل اس کو بیچ ڈالا زکوٰۃ دینے کی تاریخ سے، اور جو اس نے اس مال کو کئی سال تک نہ بیچا تو اس پر زکوٰۃ نہ ہوگی، جب بچے گا تو ایک ہی زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 669B1]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 545، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 20»

حدیث نمبر: 669B2
قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي بِالذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ حِنْطَةً أَوْ تَمْرًا أَوْ غَيْرَهُمَا لِلتِّجَارَةِ، ثُمَّ يُمْسِكُهَا حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ، ثُمَّ يَبِيعُهَا أَنَّ عَلَيْهِ فِيهَا الزَّكَاةَ حِينَ يَبِيعُهَا إِذَا بَلَغَ ثَمَنُهَا مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَلَيْسَ ذَلِكَ مِثْلَ الْحَصَادِ يَحْصُدُهُ الرَّجُلُ مِنْ أَرْضِهِ وَلَا مِثْلَ الْجِدَادِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے سونے یا چاندی کے عوض میں گیہوں یا کھجور خریدے تجارت کے واسطے، پھر مال پڑا رہا یہاں تک کہ سال گزر گیا، جب مال بکا تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر نصاب کے مقدار ہو، اس کی مثال زراعت کی یا میوہ توڑنے کی سی نہ ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 669B2]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 545، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 20»

حدیث نمبر: 669B3
قَالَ مَالِك: وَمَا كَانَ مِنْ مَالٍ عِنْدَ رَجُلٍ يُدِيرُهُ لِلتِّجَارَةِ وَلَا يَنِضُّ لِصَاحِبِهِ مِنْهُ شَيْءٌ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يَجْعَلُ لَهُ شَهْرًا مِنَ السَّنَةِ يُقَوِّمُ فِيهِ مَا كَانَ عِنْدَهُ مِنْ عَرْضٍ لِلتِّجَارَةِ، وَيُحْصِي فِيهِ مَا كَانَ عِنْدَهُ مِنْ نَقْدٍ أَوْ عَيْنٍ فَإِذَا بَلَغَ ذَلِكَ كُلُّهُ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يُزَكِّيهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس تاجر کے پاس مالِ تجارت ہے لیکن نقد اس کے پاس اس قدر جمع نہیں ہوتا کہ اس میں زکوٰۃ واجب ہو تو برس میں ایک مہینہ کے اندر اسباب کی قیمت اور نقد دونوں کو ملا کر دیکھیں گے، اگر نصاب کے مقدار ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 669B3]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 545، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 20»

حدیث نمبر: 669B4
وَقَالَ مَالِك: وَمَنْ تَجَرَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَمَنْ لَمْ يَتْجُرْ سَوَاءٌ لَيْسَ عَلَيْهِمْ إِلَّا صَدَقَةٌ وَاحِدَةٌ فِي كُلِّ عَامٍ تَجَرُوا فِيهِ أَوْ لَمْ يَتْجُرُوا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: خواہ کوئی تجارت کرے، خواہ نہ کرے، مال میں ہر سال ایک ہی بار زکوٰۃ لازم ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 669B4]
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 545، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 20»

10. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْكَنْزِ
10. کنز کے بیان میں
حدیث نمبر: 670
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنِ الْكَنْزِ مَا هُوَ؟ فَقَالَ: " هُوَ الْمَالُ الَّذِي لَا تُؤَدَّى مِنْهُ الزَّكَاةُ"
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا: کنز کسے کہتے ہیں؟ جواب دیا: کنز وہ مال ہے جس کی زکوٰہ نہ دی جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 670]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 1787، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7332، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2213، والشافعي فى «المسنده» : برقم: 407/1، والشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 57/2، شركة الحروف نمبر: 546، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 21»

حدیث نمبر: 671
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " مَنْ كَانَ عِنْدَهُ مَالٌ لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ، يَطْلُبُهُ حَتَّى يُمْكِنَهُ يَقُولُ أَنَا كَنْزُكَ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے تھے: جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوٰہ ادا نہ کرے، تو قیامت کے روز وہ مال ایک گنجے سانپ کی صورت بنے گا جس کی دو آنکھوں پر سیاہ داغ ہوں گے، اور ڈھونڈے گا اپنے مالک کو یہاں تک کہ پائے گا اس کو۔ پھر کہے گا اس سے: میں تیرا مال ہوں جس کی زکوٰۃ تو نے نہیں دی تھی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 671]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وانظر للحديث مرفوع: أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1402، 1403، 1443، 2371، 2378، 2860، 2917، 3646، 4565، 4659، 4962، 4963، 5797، 6957، 7356، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 987، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2252، 2253، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3253، 3254، 3258، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1439، 1470، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2443، 2449، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2234، 2240، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1658، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1636، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1786، 2788، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7323، 7325، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5873، 7453، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1095، 1096، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6858، شركة الحروف نمبر: 547، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 22»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next