یحیٰی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے یتیم لڑکوں کے واسطے کچھ مال خریدا، پھر وہ مال بڑی قیمت کا بکا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 665]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 540، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 15»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یتیم کے مال میں تجارت کرنا کچھ بُرا نہیں ہے جب ولی یتیم کا معتبر دیانت دار ہو اور اس پر تاوان لازم نہ ہوگا اگر نقصان ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 665B]
.امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص مر گیا اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس کے تہائی مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے، نہ زیادہ اس سے، اور یہ زکوٰۃ مقدم ہوگی اس کی وصیتوں پر، کیونکہ زکوٰۃ مثل دین (قرض) کے ہے اس پر، اسی واسطے وصیت پر مقدم کی جائے گی، مگر یہ حکم جب ہے کہ میت نے وصیت کی ہو زکوٰۃ ادا کرنے کی، اگر وہ وصیت نہ کرے لیکن وارث اس کے ادا کریں تو بہتر ہے مگر ان کو ضروری نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666Q1]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک سنّتِ اتفاقی یہ ہے کہ وارث پر زکوٰۃ واجب نہیں اس مال کی جو وراثت کی رُو سے اس کو پہنچا، نہ دین میں، نہ اسباب میں، نہ گھر میں، نہ غلام میں، نہ لونڈی میں۔ البتہ ترکے میں سے جب کسی شے کو بیچے اور اس کی بیع پر یا زرِ ثمن کے وصول پر ایک سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666Q2]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ وارث پر اس مال جو وراثت کی رُو سے اس کو پہنچا زکوٰۃ واجب نہیں ہے یہاں تک کہ ایک سال اس پر گزرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666Q3]
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: یہ مہینہ تمہاری زکوٰۃ کا ہے، تو جس شخص پر کچھ قرض ہو تو چاہیے کہ قرض ادا کر دے، اور باقی جو مال بچ رہے اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7338، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7700، 7701، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2369، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7086، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10658، شركة الحروف نمبر: 542، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 17»
حضرت ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لکھا ایک مال کے باب میں جس کو بعض حکام نے ظلم سے چھین لیا تھا کہ: پھیر دیں اس کو اس کے مالک کو، اور اس میں سے زکوٰۃ اُن برسوں کی جو گزر گئے وصول کرلیں۔ اس کے بعد ایک نامہ لکھا کہ زکوٰۃ اُن برسوں کی نہ لی جائے کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 667]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7720، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7127، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10717، 10718 شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، شركة الحروف نمبر: 543، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 18»
حضرت یزید بن خصیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے: ایک شخص کے پاس مال ہے لیکن اسی قدر قرض ہے، کیا زکوٰۃ اس پر واجب ہے؟ بولے: نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 668]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک اس حکم میں اختلاف نہیں کہ قرض کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب تک وہ وصول نہ ہو جائے۔ سو اگر قرض قرضدار پر کئی برس تک رہا، پھر وصول ہوا تو ایک ہی سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر جتنا قرض وصول ہوا ہے وہ نصاب سے کم ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر اس صورت میں کہ اس شخص کے پاس اور مال بھی ہو، سو اس میں ملا کر اس کی بھی زکوٰۃ دے، اگر اس کے پاس اور کوئی مال نقد نہ ہو لیکن مدیوں پر اور قرض باقی ہو تو ابھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی لیکن جس قدر وصول ہوا ہے اس کو یاد رکھے۔ بعد اس کے اگر اتنا وصول ہوا کہ نصاب پورا ہوگیا اس وقت زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر اس نے اس مال کو جو پیشتر وصول ہوا تھا تلف کر دیا تب بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 668B1]
جب بعد کو اس قدر وصول ہو گیا کہ اس سے نصاب پورا ہو جائے، پھر جب اس کو بیس دینار یا دو سو درہم کے موافق وصول ہو گیا تو زکوٰۃ لازم ہوگی، اب اس کے بعد کسی قدر قلیل یا کثیر وصول کرے، زکوٰۃ اس کے حساب سے بڑھتی جائے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 668B2]