ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے باپ (ابن عمر رضی اللہ عنہما) نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو جمعہ کے لیے آئے وہ پہلے غسل کر لیا کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 919]
ہم سے عبیداللہ بن عمر قواریری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے جیسے تم لوگ بھی آج کل کرتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 920]
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحیی بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے، انہوں نے کہا ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 921]
اور محمود بن غیلان (امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ) نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے (اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ) یہ کیا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا (کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا) اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا «امابعد» ! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگر میں آپ کا کلام نہ سن سکی) تو پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہو گی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا (ہشام کو شک تھا) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہا تھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 922]
ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد و تعریف کی پھر فرمایا «امابعد» ! اللہ کی قسم! میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالیٰ نے خیر اور بےنیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 923]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ صبح کو ان صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ (دوسرے دن) اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا۔ «امابعد» ! مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔ اس روایت کی متابعت یونس نے کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 924]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کھڑے ہوئے۔ پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی، پھر فرمایا «امابعد» ! زہری کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابومعاویہ اور ابواسامہ نے ہشام سے کی، انہوں نے اپنے والد عروہ سے اس کی روایت کی، انہوں نے ابوحمید سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «امابعد» ! اور ابوالیمان کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن یحییٰ نے بھی سفیان سے روایت کیا۔ اس میں صرف «امابعد» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/حدیث: 925]