امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ بعد اذان کے مؤذن سلام کرے امیر کو اور بلائے اس کو نماز کے لیے اور کون وہ شخص ہے جس پر اوّل سلام کیا مؤذن نے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے: مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ اوّل زمانہ میں مؤذن سلام کرتا ہو امیر کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B4]
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک مؤذن نے انتظار کیا لوگوں کا لیکن کوئی نہ آیا، آخر اس نے اکیلے تکبیر کہہ کر نماز پڑھ لی، جب وہ نماز پڑھ چکا تو لوگ آئے، اب مؤذن پھر اُن لوگوں کے ساتھ نماز پڑھے یا نہ پڑھے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ مؤذن پھر نہ پڑھے، اور جو لوگ آئے ہیں وہ اکیلے اکیلے نماز پڑھیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B5]
امام مالک رحمہ سے پوچھا گیا کہ ایک مؤذن نے اذان دی، پھر نفل پڑھنے لگا، اب لوگوں نے یہ ارادہ کیا کہ جماعت کھڑی کریں دوسرے شخص کی تکبیر سے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ اس میں کچھ قباحت نہیں ہے، خواہ مؤذن تکبیر کہے یا اور کوئی شخص کہے دونوں برابر ہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B6]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صبح کی اذان تو قدیم سے قبل وقت کے ہوتی چلی آئی ہے، لیکن اور نمازوں کی اذان بعد وقت کے چاہیے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B7]
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مؤذن آیا نمازِ صبح کی خبر کرنے کو، تو سوتا ہوا پایا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو۔ پس کہا اس نے «الصَّلَوٰةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ» یعنی نماز بہتر ہے سونے سے اے امیر مومنوں کے! تو حکم کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو کہ کہا کرو اس کلمے کو صبح کی اذان میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 152]
تخریج الحدیث: «ضعيف، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29852، شركة الحروف نمبر: 140، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 8»
حضرت مالک بن ابی عامر اصبحی جو دادا ہیں امام مالک رحمہ اللہ کے کہتے ہیں کہ میں نہیں دیکھتا کسی چیز کو کہ باقی ہو اس طور پر جس پر پایا میں نے صحابہ کو مگر اذان کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 153]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه جامع بيان العلم لا بن عبدالبر برقم: 1221/2، شركة الحروف نمبر: 141، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 8ب»
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے تکبیر سنی اور وہ بقیع میں تھے، تو جلدی جلدی چلے مسجد کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 154]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3411، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7473، شركة الحروف نمبر: 142، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 9»
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان دی رات کو جس میں سردی اور ہوا بہت تھی، پھر کہا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ڈیروں میں۔ پھر کہا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کرتے تھے مؤذن کو جب رات ٹھنڈی ہوتی تھی، پانی برستا تھا، یہ کہ پکارے: ”نماز پڑھ لو اپنے ڈیروں میں۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 155]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 632، 666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 697، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1655، 1656، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2076، 2077، 2078، 2080، 2084، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 653، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1630، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1060، 1061، 1062، 1063، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1275، 1311، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 937، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1897، 1898، 5096، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4564، والحميدي فى «مسنده» برقم: 717، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5673، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1901، شركة الحروف نمبر: 143، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 10»
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں صرف تکبیر کہتے تھے، مگر نمازِ فجر میں اذان بھی کہتے تھے، اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اذان اس امام کے لیے ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 156]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 743، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1975، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1893، 1894، 1895، 1896، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 2272، شركة الحروف نمبر: 144، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 11»
حضرت ہشام بن عروہ سے ان کے باپ نے کہا کہ جب تو سفر میں ہو تو تجھے اختیار ہے چاہے اذان یا اقامت دونوں کہہ یا فقط اقامت کہہ اور اذان نہ دے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سوار ہو کر اذان دینے میں کچھ قباحت نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 157]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 2276، شركة الحروف نمبر: 145، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 12»