1296- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: «قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ»(6-الأنعام:65)”تم فرمادو! وہ اس بات پر قادر ہے، تم پر تمہارے اوپر کی طرف سے عذاب بھیج دے۔“ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تیری ذات کی پناہ مانگتا ہوں۔“ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) «أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ» (6-الأنعام:65)”یاتمہارے نیچے سے (عذاب بھیج دے)“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ ”میں تیری ذات کی پناہ مانگتا ہوں۔“ «أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ»(6-الأنعام:65)(ارشاد باری تعالیٰ ہے)”یاوہ تمہیں مختلف گروہ ہوں میں تقسیم کردے اور تم ایک دوسرے کے خلاف لڑنے لگو۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دونوں آسان ہیں“(یہاں روایت کے لفظ کے بارے میں راوی کوشک ہے)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4628، 7313، 7406، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7220، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7684، 11099، 11100، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3065، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 882، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14537، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1829، 1967، 1982، 1983، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 9068»
1297- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم قربانی کے جانور کا گوشت مدینہ منورہ پہنچنے تک زاد راہ طور پر استعمال کرتے تھے۔
1298- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے موقع پر میرے والد شہید ہوگئے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا ان کی میت کی بت حرمتی کی گئی تھی میں نے ان چہرے سے کپڑا ہٹا نے کا ارادہ کیا، تو میری قوم کے افراد نے مجھے منع کردیا میں ان کے منہ سے کپڑا ہٹانا چاہ رہا تھا، لیکن میری قوم کے افرا مجھے منع کررہے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے اٹھا لیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے کی آواز سنی تو دریافت کیا: ”یہ کون ہے“؟ لوگوں نے بتایا: عمرو کی صاحبزادی ہے (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) عمرو کی بہن ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ نہ روؤ (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تم کیوں رورہی ہو؟ فرشتوں نے اس کے اٹھائے جانے تک مسلسل اپنے پروں کے ذریعے اس پر سایہ کیا ہوا تھا“۔
1300- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یہودی یہ کہا کرتے تھے: جو شخص عورت کی پچھلی طرف سے اس کی اگلی شرمگاہ کی طرف صحبت کرتا ہے، تواس کے ہاں بھینگا بچہ پیدا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ»(2-البقرة:223)”تمہاری عورتیں تمہارا کھیت ہیں تم اپنے کھیت میں جیسے چاہو آؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4528، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1435، 1435، 1435، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4166، 4197، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8924، 8925، 8926، 8927، 10971، 10972، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2163، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2978 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1172، 2260، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1925، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 366، 367، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14212، 14213، 14214، 14215، 14216، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2024»
1301- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں ہوتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (غسل کرتے ہوئے) دونوں ہاتھ بھر کر تین مرتبہ اپنے سرپر پانی ڈال لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 252، 255، 256، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 328، 329، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 117، 243، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 579، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 230، 424، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 228، وأبو داود فى «سننه» برقم: 93، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 269، 577، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 847، 848، 849، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14329، 14408، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1846، 2011، 2227، 2320»
1302- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے جابر! کیا تمہیں پتہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: ”تم آرزو کرو“، تو اس نے عرض کی: مجھے زندہ کیا جائے اور ایک مرتبہ پھر تیری راہ میں قتل کردیا جائے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے یہ فیصلہ دے دیا ہے (کہ دنیا سے آنے والے لوگ) واپس نہیں جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن،وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2572، 4912، 4921، 4928، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 540، 2550، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15110، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2002، والطبراني فى "الكبير"، 2932، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 918»
1303- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری خاتون کے پاس تشریف لائے اس خاتون نے مختلف قسم کی کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری بھی ذبح کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھایا پھر جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کی پھر اس بکری کا باقی رہ جانے والا گوشت لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو وضو نہیں کیا۔ پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تمہاری وہ بکری کہاں ہے، جس کے گھر بچہ ہونے والا ہے، توا س بکری کو لایا گیا، انہوں نے اس کا دودھ دوہ لیا۔ انہوں نے اس کا دودھ ہمیں دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش کیا ہم نے بھی اسے پی لیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔ پھر میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو وہاں دو برتن لائے گئے ان میں سے ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا گیا اور دوسرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رکھ دیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں تناول کیا ہم نے بھی تناول کیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نما ز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن،والحديث صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5457، ومالك فى «الموطأ» برقم: 50، وابن الجارود فى "المنتقى"، 26، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 43، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1130، 1132، 1134، 1135، 1136، 1137، 1138، 1139، 1145، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4686، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 185، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 188، وأبو داود فى «سننه» برقم: 191، 192، والترمذي فى «جامعه» برقم: 80، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 489، 3282، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 733، 737، 738، 742، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14483، 14520، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1963، 2017، 2098، 2160»
1304- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کا طواف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعات نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا استلام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفاء کی طرف تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم اس سے آغاز کریں گے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے“ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ»(2-البقرة:158)”بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1218، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 957، 2534، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1130، 1132، 1135، 1136، 1137، 1138، 1139، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 218 - 222»
1305- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم وادی کے نشیبی حصے میں پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (نشیبی حصے) کو پار کرلیا۔