963- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب جمعہ کا دن آتا ہے، تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر ایک دروازے پر فرشتے موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کی آمد کے اعتبار سے ان کے نام نوٹ کرتے ہیں۔ پہلے آنے والوں کا نام پہلے کانام پہلے لکھا جاتا ہے، پھر امام آجاتا ہے، تو (فرشتوں کے) صحیفے لپیٹ لیے جاتے ہیں اور وہ خطہ سننے لگتے ہیں، تو جمعے کے دن جلدی جانے والا اس طرح ہے جیسے وہ اونٹ کی قربانی کرتا ہے، پھر اس کے بعد والا اس طرح ہے جیسے وہ گائے کی قربانی کرتا ہے، پھراس کے بعد والا اس طرح ہے جیسے وہ دنبے کی قربانی کرتا ہے، یہاں تک کہ راوی نے مرغی اور انڈے کا بھی ذکر کیا۔ امام حمیدی کہتے ہیں: سفیان سے کہا گیا: دیگر محدثین نے اس روایت کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے کہ یہ روایت ”اغر“ نامی راوی سے منقول ہے، تو سفیان نے کہا: میں نے زہری کو کھبی بھی ”اغر“ کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں سنا۔ میں نے تو انہیں یہی سنا ہے کہ انہوں نے اسے سعید کے حوالے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 929، 3211، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 850، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1727، 1768، 1769، 1770، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2770، 2774، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 863، 1384، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1584، 1585، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1092، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5941، 5942، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7378، 7379»
964- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ تم پر سکون لازم ہے جتنا حصہ تمہیں ملے اسے ادا کر لو اور جو گزر جائے اسے بعد میں ادا کرلو“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 636، 908، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 602، ومالك فى «الموطأ» برقم: 221، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1065، 1505، 1646، 1772، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2145، 2146 2148، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 860، وأبو داود فى «سننه» برقم: 572، 573، والترمذي فى «جامعه» برقم: 327، 328، 329، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1319، وابن ماجه فى «سننه» 775، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1947، 3243، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7350، برقم: 7370»
965- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”فطرت پانچ چیز یں ہیں“۔ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں)”پانچ چیز یں فطرت کا حصہ ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا، ناخن تراشنا، بغلوں کے بال صا ف کرنا اور مونچھیں چھوٹی کرنا“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5889، 5891، 6297، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 257، ومالك فى «الموطأ» برقم: 711، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5479، 5480، 5481، 5482، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 9، 10، 11، 5058، 5059، 5240 وأبو داود فى «سننه» برقم: 4198، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2756، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 292، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 697، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7260»
966- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز ادا کرسکتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دوکپڑے ہوتے ہیں“؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا: جس نے ان سے سوال کیا تھا، کیا تم ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)کو جانتے ہو؟ وہ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرلیتا ہے۔ حالانکہ اس کا دوسرا کپڑا کھونٹی پر لٹکا ہوا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 358، 365، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 515، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 758، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1714، 2295، 2296، 2298، 2303، 2306، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 762، وأبو داود فى «سننه» برقم: 625، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1410، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1047، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3326، 3328، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7270، 7371»
967- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ اس نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے دعا مانگی۔ ”اے اللہ! مجھ پر اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ اور کسی پر رحم نہ کرنا“۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: ”تم نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کردیا ہے“۔ اس کے بعد وہ مسجد میں ہی پیشاب کرنے لگا، تو لوگ تیزی سے اس کی طرف لپکنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس پر پانی کا ایک ڈول بہادو“۔ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہیں آسانی فراہم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے تمہیں تنگی کرنے کے لیے نہیں بھیجاگیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 220، 6010، 6128، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 297، 298، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 985، 987، 1399، 1400، 1402، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 56، 329، وأبو داود فى «سننه» برقم: 380، 882، والترمذي فى «جامعه» برقم: 147، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 529، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4306، 4307، 4308، 4309، وأحمد فى «مسنده» 7375، 7914»
968- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں دوسری رکعت سے سراٹھایا تو یہ پڑھا۔ ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابوربیعہ اور مکہ میں موجود کمزور افراد کو نجات عطا کر۔ اے اللہ مضر قبیلے کے افراد پر اپنی سختی نازل کردے اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے کی سی قحط سالی نازل کر دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 797، 804، 1006، 2932، 3386، 4560، 4598، 6200، 6393، 6940، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 675، 676، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 615، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1969، 1972، 1981، 1983، 1986، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1072، 1073، 1074، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1440، 1442، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1636، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1244، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3135، 3136 وأحمد فى «مسنده» برقم: 7380، 7581، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5873، 5995»
969- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میری اس مسجد میں نماز ادا کرنا اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں ایک ہزار نماز یں ادا کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ البتہ مسجد حرام کا حکم مختلف ہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1190، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1394، ومالك فى «الموطأ» برقم: 670، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1621، 1625، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 693، 2899، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 775، 3868، والترمذي فى «جامعه» برقم: 325، 3916 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1458، 1460، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1404، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10374، 10385، 20194، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7373، 7533، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5857، 5875، 6165، 6166، 6167، 6525، 6554»
970-سلیمان بن غتیق بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ ”مسجد حرام میں ایک نماز ادا کرنا اور کسی بھی مسجد میں ایک سو نمازیں ادا کرنے سے افضل ہے۔“ امام حمیدی کہتے ہیں: سفیان نے یہ بات بیان کی ہے، علماء اس بات کے قائل ہیں: مسجد حرام میں نماز ادا کرنا اور کسی بھی مسجد میں ایک لاکھ نماز یں ادا کرنے سے افضل ہے، البتہ مسجد نبوی کا حکم مختلف ہے۔ کیونکہ مسجد نبوی کے مقابلے میں مسجد حرام کوایک سوگنا فضیلت حاصل ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على عمر، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7600، وأخرجه الطحاوي فى "شرح معاني الآثار"، برقم: 4801، وابن حبان فى ”صحيحه“: 1620»
971- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب گرمی شدید ہو، تو نماز کو ٹھنڈا کرکے ادا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا حصہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 533، 536، 3260، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 615، 617، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1504، 1506، 1507، 1510، 7466، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 499، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1499، وأبو داود فى «سننه» برقم: 402، والترمذي فى «جامعه» برقم: 157، 2592، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1243، 2887، 2888، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 677، 678، 4319، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2089، 2090، 2091، 2092، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7251، 7366، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5871، 6074، 6314»
972- (راوی بیان کرتے ہیں:) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے: جہنم نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں شکایت کی، اس نے عرض کی: اے میرے پروردگار! میرا ایک حصہ دوسرے کو کھا جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے دومرتبہ سانس لینے کی اجازت دی۔ ایک سانس سردی میں ہوتی ہے اور ایک سانس گرمی میں ہوتی ہے۔ تو جب تم شدید ترین گرمی پاتے ہو، تو وہ اس کی گرم سانس کا نتیجہ ہوتی ہے اور جب تم شدید ترین سردی پاتے ہو، تو وہ اس کی ٹھنڈی سانس کا نتیجہ ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 533، 536، 3260، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 615، 617، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1504، 1506، 1507، 1510، 7466، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 499، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1499، وأبو داود فى «سننه» برقم: 402، والترمذي فى «جامعه» برقم: 157، 2592، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1243، 2887، 2888، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 677، 678، 4319، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2089، 2090، 2091، 2092، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7251، 7366، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5871، 6074، 6314»