943- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات ارشاد فرمائی: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حلال واضح ہے، حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں، تو جو شخص ایسی چیز کو ترک کردے جس کے گناہ ہونے کا شبہ ہو، تو وہ اس چیز کو بدرجہ اولیٰ ترک کرے گا، واضح طور پر گناہ ہے۔ اور جو شخص مشکوک معاملے کے بارے میں جرأت کا مظاہرہ کرے، تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ آگے چل کر حرام میں مبتلا ہوجائے۔ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ وہ امور ہیں، جنہیں اس نے گناہ قرار دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1599، 2586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، 5569، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465، 5726، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10925، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، 18646»
944- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات بیان کی: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اہل ایمان کے باہمی تعلق ان کی ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے کی مثال اس انسان کی طرح ہے، جس کے اعضاء میں سے کوئی ایک عضو بیمار ہوجائے، تو پورا جسم بخاراور تجگے کا شکار ہوجاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، غير أن الحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري 6011، وأخرجه مسلم 2586، وابن حبان فى ”صحيحه“: 233 297 والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10925، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638»
945- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح و سالم رہے، تو سارا جسم صحیح و سالم رہتا ہے۔ اگر وہ بیمار ہوجائے، تو سارا جسم بیمار اور خراب ہوجاتا ہے۔ وہ دل ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1599، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، 5569، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465، 5726، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10925، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، 18646»
946- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرنے والا اور ان کی خلاف ورزی کرنے والا ایسے افراد کی مانند ہیں جوایک کشتی میں حصے کر لیتے ہیں کچھ لوگ اوپر والے حصے میں چلے جاتے ہیں اور کچھ نیچے والے حصے میں چلے جاتے ہیں جو کم بہتر ہے۔ کشتی والوں کے گزرنے کی جگہ اور پانی کے حصول کی جگہ نیچے والا حصہ ہے۔ نیچے والے لوگ جب اپنی چگہ پر آتے ہیں، تو وہ کلہاڑا لیتے ہیں دوسرے لوگ اس سے پوچھتے ہیں: تم کیا کرنے لگے ہو؟ تو وہ کہتا ہے: میں اپنی مخصوص جگہ میں سوراخ کرنے لگا ہوں تاکہ میں پانی کے قریب ہوجاؤں اور میری گزر گاہ اور پانی کے بہاؤ کی جگہ دستیاب ہو (تو دوسرے لوگوں میں سے) کچھ یہ کہتے ہیں: اسے چھوڑدو۔ اللہ تعالیٰ اسے دور کرے یہ اپنے حصے میں جو چیز چاہے تو ڑ دے، لیکن دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں: تم اسے ایسے نہ چھوڑو کہ یہ اسے توڑ دے، ورنہ یہ ہمیں اور خود کو ہلاکت کاشکار کردے گا“۔ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:)”اگر وہ دوسرے لوگ اسے روک دیتے ہیں تو وہ شخص بھی نجات پائے گا اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی نجات پائیں گے، لیکن اگر وہ لوگ اسے روکتے نہیں ہیں تو وہ شخص بھی ہلاکت کا شکار ہوگا اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے“۔
947- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں، تو جو شخص ایسی چیز کو ترک کردے جس کے گناہ ہونے کا شبہ ہو، تو واضح گناہ کو بدرجہ اولیٰ ترک کرے گا اور جو شخص مشکوک چیز کے بارے میں واضح جرات کا مظاہرہ کرے، تو وہ آگے چل کر حرام میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ جیسے کوئی شخص چراگاہ کے اردگرد جانور چرارہا ہو، تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ جانور چراگاہ کے اندر داخل ہو جائیں۔ بے شک ہر بادشاہ کی مخصوص چراگاہ ہوتی ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی مخصوص چراگاہ وہ امور ہیں، جنہیں اس نے گناہ قرار دیا ہے۔“ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 947]
تخریج الحدیث: «صحيح، وقد تقدم برقم: 946 وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» 1599، 2586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، 5569، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465، 5726، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى "سننه برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، 18646، والحميدي فى "مسنده برقم: 943، 944، 945، والطبراني فى "الصغير" برقم: 382»
948- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میرے والد نے ایک غلام مجھے عطیے کے طور پر دیا تو میری والدہ سیدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے گزارش کی آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر انہیں گواہ بنالیں، تو میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانے کے لیے حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تم نے اپنی ہرا ولاد کو اسی کی مانند عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف حق بات پر گواہ بن سکتا ہوں“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر گواہ بننے سے انکار کردیا۔
949- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (امام حمیدی کہتے ہیں: سفیان اس روایت میں غلطی کرتے ہیں) ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز میں سورہ الاعلیٰ اور سورہ الغاشیہ کی تلاوت کی تھی۔ جب جمعے کے دن عید آئی تھی اس دن بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دو سورتوں کی تلاوت کی تھی“۔
تخریج الحدیث: «في إسناده زيادة عن أبيه، بعد حبيب بن سالم، كاتب النعمان ومولاه، ولذلك قال الحمدي: كان سفيان يغلط فيه - ولكن الحديث صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 878، ومالك فى «الموطأ» برقم: 371، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1463، 1845، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2807، 2821، 2822، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1422، 1423، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1122، 1123، والترمذي فى «جامعه» برقم: 533، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1607، 1608، 1609، 1648، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1119، 1281، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5804، 5805، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18672، 18674، والحميدي فى «مسنده» برقم: 950»
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 878، ومالك فى «الموطأ» برقم: 371، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1463، 1845، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2807، 2821، 2822، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1422، 1423، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1122، 1123، والترمذي فى «جامعه» برقم: 533، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1607، 1608، 1609، 1648، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1119، 1281، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5804، 5805، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18672، 18674، والحميدي فى «مسنده» برقم: 949»
951- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ان کے والد نے انہیں کوئی عطیہ دیا پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانے کے لئے حاضر ہوئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تم نے اپنی ہر اولاد کو اسی کی مانند عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اسے واپس لے لو“۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 951]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2782، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، 5099، 5100، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3674، 3675، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، 12116، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18645، 18649»