689- اسماعیل شیبانی بیان کرتے ہیں:میں نے کھجور کے درختوں پر لگے ہوئے پھل کو ایک سو وسق کھجور وں کے عوض میں فروخت کردیا،(اس شرط پر کہ اگر درخت پر لگا ہو ا پھل) زیادہ ہوا تو ان لوگوں کو مل جائے گا اگر کم ہوا تو اس کا نقصان بھی ان کو ہوگا۔ میں نے اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا،تو انہوں نے بتایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں اس کی اجازت دی ہے۔
690- سالم اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے بعددورکعات ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر سے پہلے دورکعات ادا کرتے، اور ظہر کے بعد دورکعات ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور مغرب کے بعد دورکعات ادا کرتے ہوئے اور عشاء کے بعد دورکعات (سنت ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: مجھے یہ بات بتائی گئی ہے، ویسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا نہیں،کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح صادق ہوجانے کے بعد بھی دورکعات ادا کرتے تھے۔
691- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایک ایسے اونٹ پر سوار تھا جو سخت تھا وہ مجھ پر غالب آجاتاتھا، اور لوگوں سے آگے نکل جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے جھڑ کتے تھے اور اسے واپس کرتے تھے وہ پھر آگے ہوجاتا تھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر اسے جھڑکتے تھے اور اسے واپس کرتے تھے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”یہ مجھے فروخت کردو“ انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم )!یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مجھے فروخت کردو“۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ ان سے خرید لیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمر! یہ تمہارا ہوا تم اس کےساتھ جو چاہوکرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2115، 2610، 2611، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7073، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10814، 12075، والطبراني فى "الكبير" برقم: 13666»
692- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسونے کی انگوٹھی پہنی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتاردیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی پہنی جس کا نگینہ بھی چاندی کا بنا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نگینے کو ہتھیلی کی سمت میں رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ”محمد رسول اللہ“ نقش کروایا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا تھا کہ کوئی شخص اس کی مطابق نقش بنوائے۔ یہ وہی انگوٹھی ہے،جو سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ سے ”اریس“ کے کنویں میں گر گئی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5865، 5866، 5867، 5873، 5876، 6651، 7298، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2091، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5491، 5494، 5495، 5499، 5500، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5179، 5229، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4218، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1741، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3639، 3645، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4282، 7657، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4768 برقم: 4825»
693- مجاہد بیان کرتے ہیں: میں ثنیہ تک سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گیا، تو میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا انہوں نے صرف ایک حدیث بیان کی وہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا خدمت جمار (کھجور کے درخت کا گوند) لایا گیا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے ایک ایسے درخت کے بارے میں پتہ ہے، جس کی مثال مسلمان بندے کی مانند ہے۔“(سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:) میرے ذہن میں آئی کہ وہ کھجور کا درخت ہوگا پہلے میں بات کرنے لگا، لیکن میں نے جائزہ لیا تو میں حاضرین میں سب سے کم سن تھا۔اس لیے میں خاموش رہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے“۔
694- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اگر تم یہ بات کہہ دیتے تو میرے نزدیک اس،اس چیز سے زیادہ محبوب تھا۔ (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں) سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھا۔
695- نافع بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمر ے کا احرام باندھا اس وقت جب مدینہ سے روانہ ہوئے تھے، پھر وہ بولے: اگر مجھے روک لیاگیا، تو میں ویسا ہی کروں گا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، جب وہ بیداء کے مقام پر آئے تو بولے:حج اور عمر ے کی حیثیت ایک ہی ہے۔ میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہہ رہاہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی لازم کرلیا ہے۔راوی کہتے ہیں: پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ آئے انہوں نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا مقام ابرہیم کے پاس دو رکعات نماز نماز ادا کی پر صفا ومروہ کا چکر لگا یا پھر انہوں نے یہ بات بتائی میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسا کرتے دیکھا ہے۔ ایوب بن موسیٰ نامی راوی نے اپنی روایت میں مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں:جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ”قدید“ کے مقام پر پہنچے، تو وہاں سے انہوں نے قربانی کا جانور لیا اور اسے ساتھ لے آئے۔
696- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطارد نامی صاحب کے پاس ایک سیرانی (یعنی ریشمی) حلہ فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے استعمال کرنے سے منع کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی مانند ایک حلہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوایا تو انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطارد کے حلے کے بارے میں، تو فلاں بات ارشاد فرمائی تھی اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے پہننے کے لیے دے رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میں نے تمہیں اسی لیے نہیں دیا، کہ تم اسے پہن لو، میں نے تمہیں یہ اس لیے دیاہے، تاکہ تم اسے خواتین کو پہنے کے لیے دو!“
697- اسماعیل بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں: ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ چراگاہ کی طرف گئے جب سورج غروب ہوگیا، تو ہمیں یہ اندیشہ ہوا (کہ کہیں نماز کا وقت نہ گزرجائے) ہم نے ان سے کہا: آپ سواری سے نیچے اتر ئیے اور نماز ادا کیجئے جب شفق غروب ہوگئی تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سواری سے نیچے اترے انہوں نے ہمیں مغرب کی نماز میں تین رکعات پڑھائیں پھر انہوں نے سلام پھیرا پھر انہوں نے عشاء کی نماز کی دورکعات ادا کیں پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بتایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے۔ سفیان کہتے ہیں: ابن ابونجیح نامی راوی اکثر اوقات جب یہ حدیث بیان کرتے تھے، تو اس میں یہ الفاظ نقل نہیں کرتے تھے۔ ”جب شفق غروب ہوگئی“۔ بلکہ وہ یہ الفاظ استعمال کرتے تھے ”جب افق کی سفیدی اور رات کی سیاہی چلی گئی تو وہ اپنی سواری سے اترے انہوں نے نماز ادا کی۔“ سفیان کہتے ہیں: میں نے ابن ابونجیح سے اس کے بارے میں بات کی، تو انہوں نے بتایا: اسماعیل نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ”جب شفق غروب ہوگئی“۔ میں ان الفاظ کو نقل کرنے کو اس لیے پسند نہیں کرتا، کیونکہ مجاہد نے ہمیں یہ بات بتائی ہے: شفق سے مراد دن ہوتا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: تو میں بعض اوقات یہ روایت ان الفاظ میں نقل کرتا ہوں اور بعض اوقات ان الفاظ میں نقل کردیتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1091، 1106، 1109، 1805، 3000، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1455، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 587، 590، 591، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1207، 1212، 1217، والترمذي فى «جامعه» برقم: 555، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1558، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5595، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4558»
698- ابن ابونجیح اپنے والد کے حوالے سے ایک صاحب کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا۔ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا۔ میں نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا۔ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا تو میں اس دن روزہ نہیں رکھوں گا اور اس کا حکم بھی نہیں دوں گا اور اس سے منع بھی نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3604، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2836، 2838، 2839، 2840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 751، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1806، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 5175 برقم: 5212، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5595»