409- سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ زمین پر ٹھیکے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے یہ بات بتائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع کیا ہے، تو ہم نے ان کے بیان کی وجہ سے اس عمل کو ترک کردیا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 409]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح: وأخرجه البخاري فى «الحرث والمزارعة» برقم: 2286،2327،2332،2339،2343،2345، 2346،2722، 4012، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1547،1536، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 5191،5193،5194،5196،5197»
410- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انصار میں ہمارے پاس سب سے زیادہ کھیت تھے، ہم لوگ جسے ٹھیکے پر زمین دیتے تھے، اسے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں یہ والا حصہ ملتا ہے اور حصے کی پیدوار ہماری ہوگی، تو بعض اوقات اس حصے میں پیداوار ہوجاتی تھی اور اس حصے میں نہیں ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کردیا۔ جہاں تک چاندی کے عوض میں (زمین کو ٹھیکے پر دینے کا تعلق ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہمیں منع نہیں کیا۔ سفیان سے کہا گیا: امام مالک نے یہ روایت ربیعہ کے حوالے سے حنظلہ نامی راوی سے نقل کی ہے، تو وہ بولے: جب یہ یحییٰ کے پاس سے مل سکتی ہے، تو پھر کسی اور کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ یحییٰ زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور ہم نے یہ روایت یحییٰ سے سن کر ہی محفوظ کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «الحرث والمزارعة» برقم: 2286،2327، 2332،2339،2343،2345،2346،2722،4012، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1536،1547، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2624 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5191،5193،5194،5196،5197»
411- واسح بن حبان بیان کرتے ہیں: ایک غلام نے ایک شخص کے باغ میں سے کھجور کا پودا چوری کیا اور اسے لاکر اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا۔ اسے پکڑ کر مروان بن حکم کے پاس لایا گیا، مروان نے اس کا ہاتھ کٹوانے کا ارادہ کیا، تو سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”پھل یا کثر چوری کرنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔“ تو مروان نے اس شخص کو چھوڑ دیا۔
412- عبدالکریم کہتے ہیں: چوری کرنے والے شخص کا نام ”فیل“ تھا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 412]
413- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”فجر کی نماز روشن کرکے پڑھو، کیونکہ یہ زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تہارے لئے زیادہ اجر کا باعث ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1489، 1490،1491، والنسائي فى «المجتبى» ، برقم: 547، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 1542،1543، وأبو داود فى «سننه» برقم: 424، والترمذي فى «جامعه» برقم: 154، والدارمي فى «مسنده» ، برقم: 1253، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 672، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2185، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 16061، والطيالسي فى «مسنده» ، برقم: 1001،1003»
414- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کل ہمارا دشمن سے سامنا ہوگا، ہمارے پا چھریاں نہیں ہیں، تو کیا ہم درخت کی چھال کے ذریعہ جانور ذبح کرلیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو چیز خون بہادے اور جس پر تم نے اللہ کا نام لیا ہو اسے تم کھالو، ماسوائے اس کے جسے سن (یعنی ہڈی) یا ظفر (حبشہ کی مخصوص چھری) کے ذریعے ذبح کیا گیا ہو۔“ سن انسان کی ہڈی کو کہتے ہیں، اور ظفر حبشیوں کی مخصوص چھری ہے (یہ الفاظ شاید راوی کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الشركة» برقم: 2488،2507،3075، 5498،5503،5506،5509،5543،5544، ومسلم فى «الْأضاحي» برقم: 1968،وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 963، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4821،5886»
415- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہمیں کچھ اونٹ اور بکریاں ملے، تو ہم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا، ان میں سے ایک اونٹ سرکش ہوکر بھاگا، تو ہم نے اسے تیر مار کر (روک لیا) پھر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وحشی جانوروں کی طرح کچھ اونٹ بھی وحشی ہوجاتے ہیں جب ان میں سے کوئی وحشی ہوجائے، تو تم اس کے ساتھ یہی سلوک کرو، اور اسے کھالو۔“ سفیان کہتے ہیں: اسماعیل بن مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: ”ہم نے اسے تیر مار کر زمین پر گرا دیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الشركة» برقم: 2488،2507،3075، 5498،5503،5506،5509،5543،5544، ومسلم فى «الْأضاحي» برقم: 1968،وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 963، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4821،5886»
416- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوۂ حنین کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، عینیہ بن حصن اور اقرع بن حابس کو ایک، ایک سو اونٹ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن مرداس کو اس سے کم دیئے۔ اس کے بعد سفیان نامی راوی یا شاید عمر بن سعید نامی راوی نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: اس موقع پر عباس بن مرداس نے یہ اشعار کہے: ”کیا آپ میرے اور (میرے گھوڑے) عبید کو عینیہ اور اقرع سے کم حصہ دے رہے ہیں، حالانکہ جنگ کے دوران وہ دونوں کسی بھی حوالے سے مرداس پر فوقیت نہیں رکھتے، میں ان دونوں سے کم حیثیت کا مالک نہیں ہوں، اور آج جس کی حیثیت کو گھٹا دیا گیا، تو پھر وہ بلند نہیں ہوگی۔“ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی پورے سو اونٹ عطا کئے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 416]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «الزكاة» برقم: 1060، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4827، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13302، والطبراني فى «الكبير» ، برقم: 4396»