381- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کسی بھی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلقی اختیار کرے یوں کہ جب وہ دونوں ملیں، تو یہ ادھر منہ کرلے اور وہ ادھر منہ کرلے ان دونوں میں بہتر وہ ہوگا، جو سلام میں پہل کرے۔“ سفیان کہتے ہیں: زہری پہلے یہ روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول روایت کے طور پر سناتے تھے، لیکن پھر انہوں نے اسے عطاء بن یزید کے حوالے سے سنانا شروع کردیا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 381]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه: أخرجه البخاري في «الاستئذان» برقم: 6077، 6237، ومسلم فى «البر والصلة» برقم: 2560، ومالك فى «الموطأ» ، برقم: 691، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5669، 5670، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4911، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1932، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20084، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 24011، وعبد الرزاق في «مصنفه» ، برقم: 20223، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 25877، والطبراني فى "الكبير"، برقم: 3949»
382- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ (مدینہ منورہ کے حساب سے) مشرق یا مغرب کی جانب رخ کرو۔“ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ شام آئے، تو وہاں ہم نے ایسے بیت الخلاء دیکھے، جو قبلہ کی سمت میں بنائے گئے تھے، تو ہم ذرا ٹیڑھے ہوکر بیٹھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔ سفیان سے کہا گیا، نافع بن عمر نامی راوی اس کی سند بیان نہیں کرتے ہیں، تو سفیان نے کہا: مجھے تو یہ روایت یاد ہے اور میں اس کی سند وہی بیان کرتا ہوں جو میں نے تمہارے سامنے بیان کی ہے۔ پھر انہوں نے یہ بات بتائی کہ مکہ کے رہنے والے جو راوی ہیں انہوں نے ایک تحریر حاصل کی تھی۔ جو حمید نامی راوی شام سے لے کر آئے گھے۔ اور یہ روایات انہوں نے زہری کے حوالے سے نوٹ کی تھی، تو وہ تحریر ابن جرجہ تک پہنچی تو اہل مکہ نے اس تحریر کی وجہ سے ابن شہاب سے اعراض کرنا شروع کردیا، تاہم ہم نے تو ابن شہاب کی زبانی یہ بات سنی ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 382]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الوضوء» برقم: 144،394، ومسلم في «الطهارة» برقم: 264، ومالك فى «الموطأ» ، برقم: 658، وابن خزيمة في «صحيحه» ، برقم: 57، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1416، 1417 وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 23997، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 1611، 1612»
383- ابراہیم بن عبداللہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ ”عرج“ کے مقام پر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس بات پر بحث ہوگئی کہ احرام والا شخص اپنا سر دھو سکتا ہے؟ ان حضرات نے مجھے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میں نے انہیں کنوئیں کے کنارے پڑے ہوئے لکڑی کے ٹکڑوں کے درمیان غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ جب انہوں نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے سینے تک اپنے کپڑے اکھٹے کر لئے۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے گزارش کی: آپ کے بھتیجے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، تاکہ میں آپ سے دریافت کروں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کے دوران اپنا سر دھوتے ہوئے آپ نے کیسے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھے، اسے آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے پھر پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے اور کہا: اس طرح اور اس طرح۔ میں ان دونوں صاحبان کی پاس واپس آیا اور ان دونوں حضرات کو اس بارے میں بتایا تو سیدنا مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں آپ کے ساتھ بحث نہیں کروں گا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 383]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الصيد» برقم: 1840، ومسلم فى «الحج» برقم: 1205، ومالك فى «الموطأ» ، برقم: 1154 وابن خزيمة فى «صحيحه» ، برقم: 2650، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3948، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5998، والنسائي فى «المجتبى» برقم:، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 3631، وأبو داود في «سننه» برقم: 1840، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2934، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 24012، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 13002، والطبراني فى «الكبير» ، برقم: 3976»
384- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے 6 روزے رکھے تو گویا اس نے ہمیشہ نفلی روزے رکھے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ: میں نے سفیان سے کہا: یا شاید سفیان سے یہ کہا گیا: دیگر لوگ تو اسے ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل کرتے ہیں، تو وہ بولے: تم اس حوالے سے خاموش رہو، میں یہ بات جانتا ہوں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 384]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن: وأخرجه مسلم «في الصيام» برقم: 1164، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، وأحمد في «مسنده» ، برقم: 24016، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» ، برقم: 2337»
385- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص رمضان کے روزے رکھے۔ اس کے بعد شوال کے چھ (6) روزے رکھ لے، تو گویا اس نے ہمیشہ نفلی روزے رکھے۔“ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 385]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح: وأخرجه مسلم «في الصيام» برقم: 1164، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، وأحمد في «مسنده» ، برقم: 24016، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» ، برقم: 2337»
386- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 386]
تخریج الحدیث: «وأخرجه مسلم «في الصيام» برقم: 1164، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، وأحمد في «مسنده» ، برقم: 24016، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» ، برقم: 2337»
387- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کی تھیں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 387]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه: وأخرجه البخاري فى «الحج» برقم: 1674، 4414، ومسلم فى «الحج» برقم: 1287، ومالك فى «الموطأ» ، برقم: 1501 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3858، والنسائي فى «المجتبى» ، برقم: 606، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 1589، 4009،4010، وابن ماجه في «سننه» برقم: 3020، والبيهقي في «سننه الكبير» برقم: 1920، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 24032، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 14239»
388- عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وہ اس وقت مصر میں تھے۔ انہوں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا، جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اور اب کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں رہا تھا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو۔ صرف سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سنی ہوئی تھی۔ جب سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ مصر آئے تو مسلمہ بن مخلد انصاری کے گھر ٹھہرے، جو مصر کا امیر تھا۔ اسے اس بارے میں بتایا گیا، تو وہ تیزی سے نکل کر ان کے پاس آیا۔ اس نے ان کے ساتھ معانقہ کیا، پھر بولا: اے ابوایوب انصاری (رضی اللہ عنہ)! آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک حدیث سنی تھی، اب میرے اور عقبہ بن عامر کے علاوہ ایسا کوئی شخص نہیں رہا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو، تو تم کسی ایسے شخص کو میرے ساتھ بھیجو جو مجھے ان کے گھر تک پہنچا دے۔ راوی کہتے ہیں: تو امیر نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس شخص کو بھیجا جو انہیں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے گھر تک پہنچا دے۔ جب سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ تیزی ے نکل کر بار آئے اور ان سے گلے ملے اور دریافت کیا: اے ابوایوب(رضی اللہ عنہ)! آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا: میں نے ایک حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اب میرے اور آپ کے علاوہ ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیث سنی ہو اور وہ حدیث مؤمن کی پردہ داری کے بارے میں ہے، تو سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ بولے: جی ہاں! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص دنیا میں کسی مؤمن کی خامی کی پردہ پوشی کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔“، تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے سچ بیان کیا ہے، پھر سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ واپس اپنی سواری کی طرف آئے اس پر سوار ہوئے اور واپس مدینہ آگئے۔ مسلمہ بن مخلد کی مہمانی مصر کے شہر عریش میں ہی تھی کہ آپ واپس بھی آگئے۔ (یعنی وہ مہمانداری کرنے کا ارادہ کررہا تھا)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1164، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2875، 2876، 2877، 2878، 2879، 2880، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1795، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1716، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8521، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24016، 24039»
389- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھل جانے کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے اور یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے: ”سورج ڈھلنے کے وقت آسمان (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔“ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 389]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف: عبيدة هو ابن معتب الضبي ضعيف، وباقي رجالة ثقات، وقزعة هو ابن يحيي - وأخرجه ابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 1214، والحاكم فى «مستدركه» ، برقم: 5994، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1270، وابن ماجه في «سننه» برقم: 1157، والبيهقي فى «سننه الكبير» ، برقم: 4651، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 24015، والطيالسي فى «مسنده» ، برقم: 598، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 5992، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» ، برقم: 1966»