الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مسند الحميدي کل احادیث (1337)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند الحميدي
أَحَادِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ الْفِهْرِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے منقول روایات
1. حدیث نمبر 367
حدیث نمبر: 367
367 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: قَدِمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ الْكُوفَةَ عَلَي أَخِيهَا الضَّحَاكِ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَ عَامِلًا عَلَيْهَا، فَأَتَيْنَاهَا فَسَأَلْنَاهَا، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي، وَخَرَجَ إِلَي الْيَمَنِ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ وَطَلَبْتُ النَّفَقَةَ فَقَالَ بِكُمِّهِ هَكَذَا وَاسْتَتَرَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَرْأَةِ، وَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ كُمَّهُ فَوْقَ رَأْسِهِ، «اسْمَعِي مِنِّي يَا بِنْتَ آلِ قَيْسٍ، إِنَّمَا السُّكْنَي وَالنَّفَقَةُ لِلْمَرْأَةِ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا رَجْعَةٌ، فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْهَا رَجْعَةٌ فَلَا سُكْنَي لَهَا وَلَا نَفَقَةَ» ثُمَّ قَالَ لِي: «اعْتَدِّي عِنْدَ أُمِّ شَرِيكٍ بِنْتِ أَبِي الْعَكَرِ» ثُمَّ قَالَ: «تِلْكَ امْرَأَةٌ يُتَحَدَّثُ عِنْدَهَا، اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ فَتَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَلَا يَرَاكِ»
367- امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کوفہ تشریف لائیں وہ اپنے بھی ضحاک بن قیس کے ہاں ائی تھیں جو وہاں کے گورنر تھے، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے اس خاتون سے سوال کیا، تو انہوں نے بتایا: میں عمرو بن حفص کی بیوی تھی، اس نے مجھے طلاق دی تو طلاق بتہ دے دی اور خود یمن چلے گئے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے اس بات کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور خرچ کا مطالبہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آستین کو اس طرح کرتے ہوئے فرمایا(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے پردہ کیا تھا) امام حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی آستین اپنے سر پر بلند کرکے (یہ کرکے دکھایا): اے قیس کی اولاد! کی صاحبزادی۔ رہائش اور خرج کا حق اس عورت کو ملتا ہے، جب اس کے شوہر کو اس سے رجوع کرنے کا حق ہو، لیکن جب شوہر کے لئے اس سے رجوع کرنے کا حق نہ ہو، تو عورت کو رہائش اور خرچ کا حق نہیں ملے گا۔
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ فرمایا: تم ام شریک بنت ابوالعکر رضی اللہ عنہا کے ہاں عدت بسر کرو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ ایک ایسی عورت ہے، جس کے ہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، تو ابن ام مکتوم کے ہاں عدت بسر کرو، کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہے، اگر تم اپنی چادر اتارو گی، تو بھی وہ تمہیں نہیں دیکھ سکے گا۔

[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ الْفِهْرِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا/حدیث: 367]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، غير أن الحديث صحيح، فقد أخرجه مسلم فى الطلاق 1480، من طريق زهير بن حرب، حدثنا هشيم: أخبرنا سيار، و حصين، ومغيرة، وأشعث، ومجالد، وإسماعيل بن أبى خالد، كلهم عن الشعبي، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 4049، وانظر الحديث التالي»

2. حدیث نمبر 368
حدیث نمبر: 368
368 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: قَدِمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ الْفِهْرِيَّةُ الْكُوفَةَ عَلَي أَخِيهَا الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَ قَدِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْهَا فَأَتَيْنَاهَا نَسْأَلُهَا فَقَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَمْ أَخْطُبْكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ لِحَدِيثٍ حَدَّثَنِيهِ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ مَنَعَنِي سُرُورُهُ الْقَايِلَةَ حَدَّثَنِي تَمِيمٌ الدَّارِيُّ عَنْ بَنِي عَمٍّ لَهُ أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا فِي الْبَحْرِ مِنْ نَاحِيَةِ الشَّامِ فَأَصَابَتْهُمْ فِيهِ رِيحٌ عَاصِفٌ فَأَلْجَأَتْهُمْ إِلَي جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ فَإِذَا هُمْ فِيهَا بِدَابَّةٍ أَهْدَبَ الْقُبَالِ? فَقُلْنَا: مَا أَنْتِ يَا دَابَّةُ؟ فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ فَقُلْنَا: أَخْبِرِينَا، فَقَالَتْ: مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ وَلَا مُسْتَخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا، وَلَكِنْ فِي هَذَا الدَّيْرِ رَجُلٌ بِالْأَشْوَاقِ إِلَي أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَتُخْبِرُونَهُ، فَدَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا نَحْنُ بِرَجُلٍ أَعْوَرَ مَوْثُوقٍ بِالسَّلَاسِلِ يُظْهِرُ الْحُزْنَ كَثِيرَ التَّشَكِّي، فَلَمَّا رَآنَا قَالَ: أَفَاتَّبَعْتُمْ، فَأَخْبَرْنَاهُ فَقَالَ: مَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قُلْنَا عَلَي حَالِهَا تَسْقِي أَهْلَهَا مِنْ مَائِهَا وَتَسْقِي زَرْعَهُمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ فَقَالُوا: يُطْعِمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ قَالُوا: يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا، وَيَسْقُونَ مِنْهَا مَزَارِعَهُمْ قَالَ: فَلَوْ يَبِسَتْ هَذِهِ أَنْفَلِتُ مِنْ وَثَاقِي هَذَا فَلَمْ أَدَعْ بِقَدَمَيَّ هَاتَيْنِ مَنْهَلًا إِلَّا وَطِئْتُهُ إِلَّا الْمَدِينَةَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِلَي هَذَا انْتَهَي سُرُورِي» ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْهَا شُعْبَةٌ إِلَّا وَعَلَيْهَا مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ يَرُدُّهُ مِنْ أَنْ يَدْخُلَهَا» قَالَ الشَّعْبِيُّ: فَلَقِيتُ الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَدَّثَنِي بِهِ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ فِيهِ «وَمَكَّةَ» وَقَالَ: مِنْ نَحْوِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ نَحْوِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ قَالَ الشَّعْبِيُّ فَلَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَحَدَّثَنِي بِهِ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ
368- امام شعبی بیان کرتے ہیں: سیده فاطمہ بنت قیسں رضی اللہ عنہا کوفہ میں اپنے بھائی حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائیں جنہیں وہاں کا گورنر بنایا گیا تھا۔ . تو ہم اس خاتون کی خدمت میں ان سے دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے اس خاتون نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عین دوپہر کے وقت میں خطبہ دیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں کسی چیز کی رغبت دلانے کے لیے یا کسی چیز سے ڈرانے کے لیے خطہ نہیں دیا بلکہ ایک واقعے کی وجہ سے میں تمہیں خطبہ دے رہا ہوں جوتمیم داری نے مجھے بتایا ہے۔ اور اس خوشی کی وجہ سے میں نے دوپہر کو آرام نہیں کیا۔
تمیم داری نے اپنے چچازاد کے حوالے سے یہ بات بتائی کہ وہ لوگ سمندر میں سفر کرتے ہوئے شام کی طرف جارہے تھے۔ اسی دوران تیز ہوا چلنے لگی تو ان لوگوں نے سمندر میں جناز ے میں پناہی تو وہاں ایک جانور تھا جس کی بھنویں لمبی تھیں ہم نے کہا: اے جانور اتم کیا چیز ہو؟ اس نے جواب دیا: میں جثاثہ ہوں۔ ہم نے کہا تم ہم کو کچھ بتاؤ۔ اس نے کہا: نہ تو میں تمہیں کچھ بتاؤں گی اور نہ ہی میں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ تا ہم اس عبادت گاہ میں ایک شخص ہے جو اس بات کا مشتاق ہے کہ وہ تمہیں کچھ بتائے اور تم اسے کچھ بتاؤ۔ وہ صاحب کہتے ہیں ہم اس عبادت گاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک کانا شخص موجود تھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا اورغم کا اظہار کر رہا تھا وہ شکایت بکثرت کر رہا تھا جب اس نے ہمیں دیکھا تو بولا: کیا تم لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر لی ہے؟ ہم نے اسے اس بارے میں بتایا۔ اس نے دریافت کیا: بحر طبریہ کا کیا حال ہے؟ ہم نے کہا: وہ اپنی اصل حالت میں ہے اس کے آس پاس کے لوگ اس کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کوبھی سیراب کرتے ہیں۔ اس نے دریافت کیا: عمان اور بیسان کے درمیان موجود کھجوروں کے باغ کا کیا حال ہے؟ تو ان لوگوں نے بتایا: وہ ہر سال اپنا پھل دیتے ہیں، اس نے دریافت کیا: زرع کے چشمے کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا: وہاں کے لوگ اس کا پانی پیتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ تو وہ بولا: اگر یہ خشک ہوجائے تو میں اپنی ان زنجیروں سے آزاد ہو جاؤں گا اور پھر میں پوری روئے زمین کو اپنے قدموں تلے روند دوں گا صرف مدینہ میں نہیں جاسکوں گا۔
. (راوی کہتے ہیں): پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: اس بات پر میں بہت خوش ہوا ہوں۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس ذات کی تم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہاں (یعنی مدینہ منورہ) کے ہر ایک راستے پر ایک فرشتہ تلوار سونت کر کھڑا ہوا ہے جو اس (دجال) کو اس میں داخل ہونے سے روک دے گا۔
امام شعبی یہ کہتے ہیں: بعد میں میری ملاقات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محرر سے ہوئی تو انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہی حدیث مجھے سنائی تاہم انہوں نے اس میں یہ الفاظ زائد نقل کیے (کہ وہ مکہ میں بھی داخل نہیں ہو سکے گا) انہوں نے یہ بات بھی بیان کی یہ مشرق کی سمت سے ہوگا اور وہ کیا ہے جومشرق کی سمت سے ہوگا وہ کیا ہے؟
امام شعبی بیان کرتے ہیں میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی تو انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ماند روایت نقل کی۔

[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ الْفِهْرِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا/حدیث: 368]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد، غير أن الحديث صحيح، أخرجه أحمد برقم: 412، 418 ومسلم فى الفتن 2942، باب: قصة الجساسة، وابن أبى شيبة برقم: 156 برقم: 19366 وأبوداود فى الملاحم 4327 برقم:، وابن ماجه فى الفتن 4327، والطبراني فى «‏‏‏‏الكبير» برقم 922، 956، 923، 957، 958، 959، 960، 961، 962 - 978، من طرق وبروايات، وقد خر جناه فى صحيح ابن حبان برقم 6787،6788،6789»