345- عبداللہ بن محمد کہتے ہیں: امام زین العابدین رحمہ اللہ نے مجھے سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا تاکہ میں ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں دریافت کروں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاں وضو کیا تھا، میں اس خاتون کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ایک برتن نکال کر مجھے دکھایا جس میں ایک مد یا شاید ایک مد اور ایک چوتھائی مد پانی آتا ہوگا۔ انہوں نے بتایا: میں اس برتن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی رکھتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آغاز کرتے ہوئے پہلے دونوں ہاتھ برتن میں داخل کرنے پہلے تین مرتبہ دھوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ کلی کرتے تھے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالتے تھے اور تین مرتبہ اپنا چہرہ دھوتے تھے، پھر دونوں بازو تین مرتبہ دھوتے تھے، پھر اپنے سر مبارک کا آگے سے پیچھے کی طرف اور پیچھے سے آگے کی طرف مسح کرتے تھے۔ پھر دونوں پاؤں تین، تین مرتبہ دھوتے تھے۔ پھر اس خاتون نے بتایا، تمہارے چچازاد میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا تھا میں انہیں بتایا تو وہ بولے: مجھے اللہ کی کتاب میں صرف دو چیزوں کو دھونے اور دو چیزوں پر مسح کا حکم ملتا ہے۔ اس خاتون کی مراد سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے ہمارے سامنے مسح کا طریقہ کرکے دکھایا انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ مانگ کے دونوں اطراف پر رکھے پھر ان کے ذریعے اپنی پیشانی تک مسح کیا پھر انہوں نے سر کے درمیان میں مانگ کے دونوں کناروں پر دونوں ہاتھ رکھے پھر پیچھے گردن تک مسح کیا۔ سفیان کہتے ہیں: ابن عجلان نے پہلے یہ روایت ابن عقیل کے حوالے سے سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا سے نقل کی تھع اور انہوں نے مسح کے بارے میں مزید یہ الفاظ نقل کئے: ”پھر وہ اپنے دونوں کناروں کا مسح کرتے ہوئے رخساروں تک آئے، یہاں تک کہ داڑھی کے کنارے تک آئے۔“ جب ہم نے ابن عقیل سے اس بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے رخساروں پر مسح کرنے کا تذکرہ نہیں کیا۔ ان کے حافظے میں کچھ کمزوری تھی اس لئے میں نے انہیں تلقین کرنے کو پسند نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن: أخرجه الحاكم في «مستدركه» برقم: 542، وأبو داود فى «سننه» برقم: 126، والترمذي فى «جامعه» ، برقم: 33، والدارمي فى «مسنده» برقم: 717، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 418، والبيهقي في «سننه الكبير» برقم: 274،والدارقطني في «سننه» ، برقم: 288،وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 27657، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» ، برقم: 59»