الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند احمد
مسند النساء
حدیث نمبر: 24941
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ". قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ:" وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ، وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سیدھی بات کہا کرو، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا کرو اور خوشخبریاں دیا کرو، کیونکہ کسی شخص کو اس کے اعمال جنت میں نہیں لے جاسکیں گے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو بھی نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بھی نہیں، الاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور جان رکھو کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسند یدہ عمل وہ ہے جو دائیمی ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24941]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6464، م: 2818
حدیث نمبر: 24942
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ ، عَنْ زُبَيْدٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ يُوَرِّثُهُ" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھ مسلسل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24942]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 24943
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشہ نشینی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24943]
حكم دارالسلام: حديث صحيح
حدیث نمبر: 24944
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ذَكَرَ جَهْدًا شَدِيدًا يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ الدَّجَّالِ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ"، فَقُلْتُ: مَا يُجْزِئُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ مِنَ الطَّعَامِ؟ قَالَ:" مَا يُجْزِئُ الْمَلَائِكَةَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَالتَّحْمِيدُ وَالتَّهْلِيلُ". قُلْتُ: فَأَيُّ الْمَالِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ؟ قَالَ:" غُلَامٌ شَدِيدٌ يَسْقِي أَهْلَهُ مِنَ الْمَاءِ، وَأَمَّا الطَّعَامُ، فَلَا طَعَامَ" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خروج دجال کے موقع پر پیش آنے والی تکالیف کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا اس زمانے میں سب سے بہترین مال کون سا ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ طاقتور غلام جو اپنے مالک کو پانی پلا سکے، رہا کھانا تو وہ نہیں، میں نے پوچھا کہ اس زمانے میں مسلمانوں کا کھانا کیا ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تسبیح و تکبیر اور تحمید و تہلیل، میں نے پوچھا کہ اس دن اہل عرب کہاں ہوں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے میں اہل عرب بہت تھوڑے ہوں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24944]
حكم دارالسلام: إسناده فيه ضعف وانقطاع، راجع: 24470
حدیث نمبر: 24945
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَرْسَلَنِي مُدْرِكٌ أَوْ ابْنُ مُدْرِكٍ إِلَى عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ أَشْيَاءَ. قَالَ: فَأَتَيْتُهَا، فَإِذَا هِيَ تُصَلِّي الضُّحَى، فَقُلْتُ: أَقْعُدُ حَتَّى تَفْرُغَ، فَقَالُوا: هَيْهَاتَ، فَقُلْتُ: لِآذِنِهَا كَيْفَ أَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا؟ فَقَالَ: قُلْ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، السَّلَامُ عَلَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا، فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: أَخُو عَازِبٍ، نِعْمَ أَهْلُ الْبَيْتِ. فَسَأَلْتُهَا عَنِ الْوِصَالِ؟ فَقَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَاصَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْا الْهِلَالَ أَخْبَرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَوْ زَادَ لَزِدْتُ". فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَاكَ أَوْ شَيْئًا نَحْوَهُ؟ قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي" . وَسَأَلْتُهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى الصَّدَقَةِ، قَالَتْ: فَجَاءَتْهُ عِنْدَ الظُّهْرِ، " فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، وَشُغِلَ فِي قِسْمَتِهِ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ صَلَّاهَا"، وَقَالَتْ:" عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُهُ، فَإِنْ مَرِضَ قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ" ، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ أَحَدَكُمْ , يَقُولُ: بِحَسْبِي أَنْ أُقِيمَ مَا كُتِبَ لِي، وَأَنَّى لَهُ ذَلِكَ. وَسَأَلْتُهَا عَنِ الْيَوْمِ الَّذِي يُخْتَلَفُ فِيهِ مِنْ رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: " لَأَنْ أَصُومَ يَوْمًا مِنْ شَعْبَانَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُفْطِرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ" ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبَا هُرَيْرَةَ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، قَالَ: أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ بِذَاكَ مِنَّا. سَمِعْت أَبِي يَقُولُ: يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ، صَالِحُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبِي: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُوسَى هُوَ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ شُعْبَةُ، هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ.
عبداللہ بن ابی موسیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے مد رک یا ابن مدرک نے کچھ سوالات پوچھنے کے لئے حضرت عائشہ کے پاس بھیجا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے سوچا کہ ان کے فارغ ہونے تک بیٹھ کر انتظار کرلیتا ہوں لیکن لوگوں نے بتایا کہ انہیں بہت دیر لگے گی، میں نے انہیں اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ میں ان سے کس طرح اجازت طلب کروں؟ اس نے کہا کہ یوں کہو: السَلَا مُ عَلَیکَ اَ یُھَا النَبِیُ وَرَحمَتُ اللہِ وَ بَرَ کَاتُہ، السَلَامُ عَلَینا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَالِحِینَ السَلاَ مُ عَلیَ اُمَھِاتِ المُومِنِینَ میں اس طرح سلام کرکے اندر داخل ہوا اور ان سے سوالات پوچھنے لگا، انہوں نے فرمایا عازب کے بھائی ہو، وہ کتنا اچھا گھرانہ ہے۔ پھر میں نے ان سے مسلسل روزے " جن میں افطاری نہ ہو " رکھنے کے متعلق سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اس طرح روزے رکھے تھے لیکن صحابہ کرام مشقت میں پڑگئے تھے اس لئے چاند دیکھتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ مہینہ مزید آگے چلتا تو میں بھی روزے رکھتا رہتا (اس پر نکیر فرمائی) کسی نے کہا کہ آپ خود بھی تو اس طرح کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری طرح نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گذارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے۔ پھر میں نے ان سے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، زکوٰۃ کا وہ مال ظہر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی اور نماز عصر تک اسے تقسیم کرنے میں مشغول رہے، اس دن عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعتیں پڑھی تھیں، پھر انہوں نے فرمایا کہ تم اپنے اوپر قیام اللیل کو لازم کرلو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے، اگر بیمار ہوتے تو بیٹھ کر پڑھ لیتے، میں جانتی ہوں کہ تم میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں فرض نمازیں پڑھ لوں، یہی کافی ہے لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر میں نے ان سے اس دن کے متعلق پوچھا جس کے رمضان ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہوجائے تو انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک شعبان کا ایک روزہ رکھ لینا رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے سے زیادہ محبوب ہے، اس کے بعد میں وہاں سے نکل آیا اور یہی سوالات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھے، تو ان میں سے ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہم سے زیادہ یہ باتیں جانتی ہیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24945]
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها: لأن أصوم من شعبان.....من رمضان وهذا إسناد ضعيف
حدیث نمبر: 24946
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَادَ مَرِيضًا مَسَحَهُ بِيَدِهِ، وَقَالَ:" أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا". فَلَمَّا مَرِضَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَذَهَبْتُ لِأَقُولَ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَاجْعَلْنِي فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کرنے فرماتے تو اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما، اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء دے دے کہ جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں ان کا دست مبارک پکڑتی تو یہ کلمات پڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ان کے جسم پر پھیر دیتی، میں یوں ہی کرتی رہی یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑا لیا اور کہنے لگے پروردگار! مجھے معاف فرما دے اور میرے رفیق سے ملا دے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24946]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2191
حدیث نمبر: 24947
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : مَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: فَقُلْنَا: الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ, قَالَ: فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذًا لَدَابَّةُ سُوءٍ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَرِضَةً كَاعْتِرَاضِ الْجَنَازَةِ، وَهُوَ يُصَلِّي" . قَالَ شُعْبَةُ: بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ فِيمَا أَظُنُّ.
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا تھا کہ کن چیزوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟ عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا عورت اور گدھے کے نمازی کے آگے سے گزرنے پر، انہوں نے فرمایا پھر تو عورت بہت برا جانور ہوئی، میں نے تو وہ وقت دیکھا ہے جبکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24947]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 512
حدیث نمبر: 24948
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ : كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ:" كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ، فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ خَرَجَ فَصَلَّى" .
اسود کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24948]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 676
حدیث نمبر: 24949
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ ، يُحَدِّثُ عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ جُنُبًا، فَأَرَادَ أَنْ يَنَامَ، أَوْ يَأْكُلَ، تَوَضَّأَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وجوبِ غسل کی حالت میں سونا یا کھانا چاہتے تو نماز جیسا وضو فرما لیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24949]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 305
حدیث نمبر: 24950
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، أَنَّ عَلْقَمَةَ وَشُرَيْحَ بْنَ أَرْطَاةَ كَانَا عِنْدَ عَائِشَةَ ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: سَلْهَا عَنِ الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لَا أَرْفُثُ عِنْدَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ" .
علقمہ اور شریح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دینے کا حکم پوچھا، دوسرے نے کہا کہ آج میں ان کے یہاں بےتکلف کھلی گفتگو نہیں کرسکتا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود ہی فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دیدیا کرتے تھے اور ان کے جسم سے اپنا جسم ملا لیتے تھے اور تم سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24950]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صورته الإرسال، خ: 1967، م: 1106

Previous    90    91    92    93    94    95    96    97    98    Next