حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ نَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ:" عَلَيْكُمْ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: عَلَيْكُمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَلَعْنَةُ اللَّاعِنِينَ، قَالُوا: مَا كَانَ أَبُوكِ فَحَّاشًا، فَلَمَّا خَرَجُوا، قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ؟" قَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ مَا قَالُوا؟ قَالَ: " فَمَا رَأَيْتِينِي قُلْتُ: عَلَيْكُمْ، إِنَّهُ يُصِيبُهُمْ مَا أَقُولُ لَهُمْ، وَلَا يُصِيبُنِي مَا قَالُوا لِي" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں آنے کی اجازت چاہی اور السام علیک کہا، (جس کا مطلب یہ ہے کہ تم پر موت طاری ہو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیکم یہ سن کر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ تم پر ہی اللہ کی اور لعنت کرنے والوں کی لعنت طاری ہو، اس پر وہ یہودی کہنے لگے کہ تمہارے والد تو اس طرح کی گفتگو نہیں کرتے، جب وہ چلے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے انہیں جواب دیدیا ہے، وَعَلَیکُم (تم پر ہی موت طاری ہو) میں جو کہوں گا وہ انہیں جا پہنچے گا لیکن جو وہ کہیں گے، وہ مجھے نہیں پہنچے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24851]
حكم دارالسلام: رجاله ثقات إلا أن ابا بكر لم يسمع من عائشة، وقد سلف بغير هذه السياقة بإسناد صحيح برقم: 24090
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے، یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سر کے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24852]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5205، م: 2123
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ الْأَيْلِيُّ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا أَتَى إِلَى فِرَاشِهِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا، وَقَرَأَ فِيهِمَا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ مَسْحَ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ، يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ، وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ، يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" . حضرت عائشہ! سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنی ہتھیلیاں جمع کرتے اور ان پر سورت اخلاص اور معوذ تین پڑھ کر پھو نکتے اور جہاں جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر ان ہاتھوں کو پھیر لیتے اور سب سے پہلے اپنے سر اور چہرے اور سامنے کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے اور تین مرتبہ اس طرح کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24853]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5017
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ حبشی کرتب دکھا رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سر رکھ کر انہیں جھانک کر دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھے میرے لئے جھکا دیئے، میں انہیں دیکھتی رہی اور جب دل بھر گیا تو واپس آگئی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24854]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، عبدالرحمن بن أبى الزناد متابع، م: 892 نحوه
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیوں کو جان لینا چاہیے کہ ہمارے دین میں بڑی گنجائش ہے اور مجھے خالص ملت حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24855]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ . وَعَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عنبسة بن سعيد عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ :" أَتَدْرِي مَا سِعَةُ جَهَنَّمَ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" أَجَلْ، وَاللَّهِ مَا تَدْرِي , إِنَّ بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِ أَحَدِهِمْ وَبَيْنَ عَاتِقِهِ مَسِيرَةَ سَبْعِينَ خَرِيفًا، تَجْرِي فِيهَا أَوْدِيَةُ الْقَيْحِ وَالدَّمِ"، قُلْتُ: أَنْهَارًا؟ قَالَ:" لَا، بَلْ أَوْدِيَةً،" ثُمّ قَالَ:" أَتَدْرُونَ مَا سِعَةُ جَهَنَّمَ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" أَجَلْ، وَاللَّهِ مَا نَدْرِي" . حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ : أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ: وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سورة الزمر آية 67، فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هُمْ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ" . مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ جہنم کی وسعت کتنی ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں، انہوں نے فرمایا اچھا واقعی تمہیں معلوم نہیں ہوگا، اہل جہنم کے کانوں کی لو سے کندھے کے درمیان ستر سال کی مسافت حائل ہوگی اور اس میں پیپ اور خون کی وادیاں بہہ رہی ہوں گی، میں نے عرض کیا " نہریں " فرمایا نہیں بلکہ وادیاں، پھر دوبارہ پو چھا کیا تم جانتے ہو کہ جہنم کی وسعت کتنی ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں، انہوں نے فرمایا اچھا، واقعی تمہیں معلوم نہیں ہوگا، مجھے حضرت عائشہ نے بتایا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق پو چھا تھا قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان لپیٹے ہوئے اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے، تو یارسول اللہ! اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنم کے پل پر ہوں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24856]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ، هَذَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ". فَقُلْتُ: عَلَيْكَ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، تَرَى مَا لَا نَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ . حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک مرتبہ فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، انہوں نے جواب دیا وَ عَلیہِ السلاَم وَرَحمَۃُ اللہِ یارسول اللہ! آپ وہ کچھ دیکھ سکتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24857]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي، خ: 3617
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوئی اور مرض میں شدت آگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گذارنے کی اجازت طلب کی تو سب نے اجازت دے دی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24858]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2593، م: 418
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، وَعَلِيٌّ , قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، قالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ يُونُسَ ، قَالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا، خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ كَانَتْ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" . حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے تھے، جس کا نام نکل آتا اسے اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے تھے اور ہر زوجہ مطہرہ کو دن اور رات میں اس کی باری دیتے تھے، البتہ حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری کا دن اور رات حضرت عائشہ کو ہبہ کردی تھی اور مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24859]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2593، م: 2270 مطولا
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب مؤذن اذانِ فجر سے خاموش ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مختصر رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24860]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 994، م: 736