حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنَا الْمَعْنَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ، فَجَاءَ بَعِيرٌ فَسَجَدَ لَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَسْجُدُ لَكَ الْبَهَائِمُ وَالشَّجَرُ، فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ. فَقَالَ: " اعْبُدُوا رَبَّكُمْ، وَأَكْرِمُوا أَخَاكُمْ، وَلَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَلَوْ أَمَرَهَا أَنْ تَنْقُلَ مِنْ جَبَلٍ أَصْفَرَ إِلَى جَبَلٍ أَسْوَدَ، وَمِنْ جَبَلٍ أَسْوَدَ إِلَى جَبَلٍ أَبْيَضَ، كَانَ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَفْعَلَهُ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کے کچھ لوگوں کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا، یہ دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! درندے اور درخت آپ کو سجدہ کرسکتے ہیں تو ہمیں اس کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ آپ کو سجدہ کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبادت صرف اپنے رب کی کرو اور اپنے " بھائی کی عزت کرو، اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حکم دے کہ اس زرد پہاڑ سے اس سیاہ پہاڑ پر یا اس سیاہ پہاڑ سے اس سفید پہاڑ پر منتقل ہوجائے تو اس کے لئے یونہی کرنا اس کے حق میں مناسب ہوگا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24471]
حكم دارالسلام: قوله: لو كنت آمرا.... لزوجها صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز توبہ کے لئے کھڑے ہوتے تو تین مرتبہ رکوع کرتے پھر سجدہ فرماتے، پھر تین مرتبہ رکوع کرتے اور سجدہ فرماتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24472]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 901
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ:" خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصَلَّى، فَكَبَّرَ، وَكَبَّرَ النَّاسُ، ثُمَّ قَرَأَ، فَجَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ، وَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"، ثُمَّ قَامَ، فَقَرَأَ، فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ، فَفَعَلَ فِي الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ" . حضرت عائشہ ر صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ دور نبوت میں سورج گرہن ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مصلیٰ پر پہنچ کر نماز پڑھنے لگے اور طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا اور طویل رکوع کیا، پھر سجدے میں جانے سے پہلے سر اٹھا کر طویل قیام کیا، البتہ یہ پہلے قیام سے مختصر تھا، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے پھر وہی کیا جو پہلی رکعت میں کیا تھا، البتہ اس رکعت میں پہلے قیام کو دوسرے کی نسبت لمبا رکھا اور پہلا رکوع دوسرے کی نسبت زیادہ لمبا تھا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی جبکہ سورج گرہن ختم ہوگیا تھا پھر فرمایا شمس و قمر اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی زندگی اور موت سے گہن نہیں لگتا، اس لئے جب ایسا ہو تو فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجایا کرو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24473]
حكم دارالسلام: حديث صحيح سليمان بن كثير - وإن كان ضعيفا فى الزهري- متابع
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب بادل یا آندھی نظر آتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک پر تفکرات کے آثار نظر آنے لگتے تھے اور جب بارش ہوجاتی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہوتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24474]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن عبدالرحمن
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَأْتِي بَعْضَ نِسَائِهِ، فَاتَّبَعْتُهُ، فَأَتَى الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَالَ: " سَلَامٌ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا بِكُمْ لَلَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ"، قَالَتْ: ثُمَّ الْتَفَتَ، فَرَآنِي، فَقَالَ:" وَيْحَهَا، لَوْ اسْتَطَاعَتْ مَا فَعَلَتْ" قَالَ: ذَكَرَهُ شَرِيكٌ مَرَّةً أُخْرَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہیں پایا، میں سمجھی کہ وہ اپنی کسی اہلیہ کے پاس گئے ہیں، میں تلاش میں نکلی تو پتہ چلا کہ وہ بقيع میں ہیں، وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " السلام علیکم دار قوم مومنین " تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی تم سے آکر ملنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ فرما اور ان کے بعد کسی آزمائش میں مبتلا نہ فرما پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پلٹ کر دیکھا تو مجھ پر نظر پڑ گئی اور فرمایا افسوس! اگر اس میں طاقت ہوتی تو یہ ایسا نہ کرتی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24475]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ، عَنْ مُعَاذَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَسْتَأْذِنُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْمَرْأَةِ مِنَّا" بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكَ سورة الأحزاب آية 51 قَالَتْ فَقُلْتُ لَهَا: مَا كُنْتِ تَقُولِينَ لَهُ؟ قَالَتْ: كُنْتُ أَقُولُ لَهُ: إِنْ كَانَ ذَلِكَ إِلَيَّ، فَإِنِّي لَا أُرِيدُ أَنْ أُوثِرَ عَلَيْكَ أَحَدًا . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ " آپ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں موخر کر دیں اور جیسے چاہیں اپنے قریب کر لیں۔۔۔۔ تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اجازت لیا کرتے تھے، ہم میں سے جس کی بھی باری کا دن ہوتا، عمرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتی تھی کہ یا رسول اللہ! اگر یہ میرے اختیار میں ہے تو میں آپ پر کسی دوسرے کو ترجیح نہیں دینا چاہتی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24476]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4789، م: 1476
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہ جب بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے اپنی باری کا دن مجھے دے دیا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی باری کا دن مجھے دیتے تھے اور وہ پہلی خاتون تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد نکاح فرمایا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24477]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5212، م: 1463
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت کے مبارک ہونے کی علامات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کا نکاح آسانی سے ہو جائے اس کا مہر آسان ہو اور اس کا رحم سہل ہو (نطفہ قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو) [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24478]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتا ہے اس کے ساتھ شیطان بھی کھانے لگتا ہے اور جو شخص بائیں ہاتھ سے پیتا ہے اس کے ساتھ شیطان بھی پینے لگتا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24479]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال موسي بن سرجس
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ حَنْطَبٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرٍ، بَعَثَ إِلَى عَائِشَةَ بِنَفَقَةٍ وَكِسْوَةٍ، فَقَالَتْ لِلرَّسُولِ: إِنِّي يَا بُنَيَّ لَا أَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ شَيْئًا، فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَتْ: رُدُّوهُ عَلَيَّ، فَرَدُّوهُ، فَقَالَتْ: إِنِّي ذَكَرْتُ شَيْئًا قَالَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، مَنْ أَعْطَاكِ عَطَاءً بِغَيْرِ مَسْأَلَةٍ، فَاقْبَلِيهِ، فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ عَرَضَهُ اللَّهُ لَكِ" . مطلب بن حنطب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عامر رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں کچھ نفقہ اور کپڑے بھجوائے، انہوں نے قاصد سے فرمایا بیٹا! میں کسی کی کوئی چیز قبول نہیں کرتی، جب وہ جانے لگا تو انہوں نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ، لوگ اسے بلا لائے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے ایک بات یاد آ گئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمائی تھی کہ اے عائشہ! جو شخص تمہیں بن مانگے کوئی ہدیہ پیش کرے تو اسے قبول کر لیا کرو، کیونکہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24480]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف، المطلب بن حنطب لم يدرك عائشة